اور ہم نے جو بھی رسول بھیجا اس لیے بھیجا ہے کہ خدا کی اجازت سےاس کی اطاعت کی جائے اور جب یہ لوگ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھتے تھے تو اگر آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو وہ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا پاتے.
خود پیغمبراکرم(ص) فرماتے ہیں :
«حَیاتی خَیرٌ لَكُمْ تحدثون و نحدث لکم و وفاتی خیر لکم تعرض علیّ اعمالکم ..» (1)
میری زندگی تمھارے لئے بہتر ہے کہ تم مجھ سے سوال کریں اور میں تم کو جواب دوں ، اسی طرح میری وفات بھی تمھارے لئے بہتر ہے کہ تم اپنے اعمال کو عارضہ کرو. اسی طرح اپنی زیارت کرنے کی بھی لوگوں کو تشویق دلائی:
«مَنْ زَارَ قَبْرِی وَجَبَتْ لَهُ شَفَاعَتِی». (2)
جو بھی میری قبر کی زیارت کرے گا اس کیلئے میری شفاعت اور بہشت واجب ہوگی.
جو بھی میری قبر کی زیارت کرے اس کی شفاعت کرنا میرے اوپر فرض ہے .(3)
حضرت عمر نے فتوحات شام کے بعد جب مدینہ پہنچےتو سب سےپہلے مسجد نبوی میں آکر آپ پر سلام بھیجا ہے.
--------------
(1):- طرح التثریب، ص 297.
(2):- السنن الکبری، ج 5، ص 5 24.
(3):- 40 منبع از کتاب ہای اہل سنت.