میری زندگی کے مختصر لمحات
میری یادوں کی کڑیوں میں یہ بات ابھی تک بہت اچھی طرح سے محفوظ ہے کہ میری عمر یہی کوئی دس 10 سال کی رہی ہوگی ۔جب ماہ مبارک رمضان میں میرے والد ماجد مجھے نماز تراویح کے لئے محلہ کی مسجد میں اپنے ساتھ لے گئے اور مجھے نمازیوں کی صف میں کھڑا کردیا فطری بات ہے لوگوں کو یہ دیکھ کربہت تعجب ہو ۔ چند دنوں سے یہ بات بھی سمجھ گیا تھا کہ میرے معلم نے کچھ اس طرح کے انتظامات کررکھے ہیں جس سے دو یا تین راتیں جماعت کے ساتھ نماز تراویح بھی پڑھ لوں ۔ویسے میری عادت یہ بن گئی تھی کہ محلہ کے ہم سن بچوں کو نماز جماعت پڑھا تا تھا ۔ اور اس انتظار میں رہا کرتا تھا کہ امام جماعت قرآن کے نصف آخر (یعنی سورہ مریم )تک پہونچے ۔
چونکہ میرے اباجا نی جنت مکانی کی دلی آرزو تھی کہ مدرسہ کے علاوہ گھر میں بھی راتوں کو بعض اوقات میں قرآن کی تعلیم حاصل کیا کروں جن میں مسجد جامع کے امام اقامت پذیر ہوئے تھے ۔ یہ امام جماعت نابینا تھے اور میرے رشتہ دار بھی تھے ۔ اور حافظ قرآن تھے ۔ اور میں نے اس سن وسال میں نصف قرآن حفظ کرلیا تھا جب عموما بچے غم دوراں اور غم جاناں سے بے فکر ہو کر زندگی کا سرمایہ کھیل کود کو سمجھتے ہیں ۔اس لئے میرے معلم نے اپنے فضل واجتہاد کا سکہ بٹھانے کیلئے مجھے منتخب کیا اور مجھے تلاوت کے رکوع وغیرہ نہ صرف بتائے بلکہ باربار پوچھ کر ذہن نشین بھی کرادیئے ۔۔۔۔۔اور پھر جب میں نماز جماعت وتلاوت کے امتحان میں اپنے والد ومعلم کی توقع سے کہیں زیادہ ممتاز نمبروں سے کامیاب ہوگیا تو لوگ مجھے پیار کرنے کے لئے ٹوٹ پڑے اور میری تعریف کے ساتھ معلم کو شکریہ اور ابا جانی کوتبریک وتہنیت پیش کرنے لگے ۔اور سب یک زبان ہو کر کہہ رہے تھے ۔ یہ سب (شیخ صاحب کی برکتیں ہیں )
پھر کچھ دنوں میں میں نے بڑی ہنسی خوشی کے دن گزارے اور وہ مسرت آفریں لمحات میرے ذہن پر چھائے رہے ۔ کیونکہ میری زندگی کا یہ ایسا مسرت آگیں زمانہ تھا جس سے میں دوچار ہوا تھا جس کو بھلانے پر میں قادر نہیں تھا ۔