میرا نام تیجانی رکھنے کی علت یہ ہوئی کہ سماوی خاندان میں اس لفظ کی بڑی اہمیت تھی ۔ قصہ دراصل یہ ہے کہ جب الجزائر کی واپسی میں الشیخ سید احمد التیجانی کے لڑکے شہر قفصہ میں "دار السماوی " کے مہمان ہوئے اسی وقت سے شہر کی اکثریت نے اس طریقہ کو قبول کرلیا خصوصا علمی اور مالدار گھرانوں کے تمام افراد اسی طریقہ تیجانیہ کے حلقہ بگوش ہوگئے ۔ اور سماوی فیملی تو پوری کی پوری اسی طریقہ تیجانیہ پر کاربند ہوگئی اسی لئے میری والدہ مرحومہ نے میرانام تیجانی رکھ دیا ۔ اور اپنے اسی نام کی وجہ سے میں "دارالسماوی " میں محبوب ہوگیا ۔ جس میں بیس 20 سے زیادہ خاندان آباد تھے اور یہاں سے باہر بھی میری شہرت ان تمام لوگوں میں ہوگئی ۔جنکو طریقہ تیجانیہ سے محبت وعقیدت تھی اور یہی وجہ ہے کہ جس ماہ مبارک کی راتوں کامیں نے تذکرہ کیا ہے تمام نمازی میرے سرکابوسہ لیتے تھے ۔ اور تاتھوں کو چومتے ہوئے کہتے جاتے تھے ۔"یہ سب الشیخ احمد التیجانی " کی برکتوں کا فیض ہے " اورسب لوگ میرے والد ماجد کو مبارک باد بھی پیش کررہے تھے ۔
ایک بات کا یہاں ذکر کرنا ضروری ہے کہ" طریقہ تیجانیہ " مغرب الجزائر ٹیونس ،لیبیا ،سوڈان ،مصر میں بہت ہی مشہور ہے اور اس کے ماننے والے ایک حد تک متعصب بھی ہیں ۔ یہ لوگ دوسرے اولیائے کرام کی زیارت نہیں کرتے ۔اور ان لوگوں کا عقیدہ ہے کہ جتنے بھی اولیاء اللہ ہیں سب نے ایک دوسرے سے سلسلہ وار اخذ علوم ہے صرف الشیخ احمد التیجانی ایسے ولی ہیں جنھوں نے براہ راست رسول خدا سے اخذ کیا ہے ۔
حالانکہ شیخ کا زمانہ نبوت سے تیرہ سو 1300 سال کے بعد کا ہے ۔نیز یہ لوگ روایت کرتے ہیں کہ الشیخ احمد التیجانی بیان کرتے تھے کہ رسول خدا عالم بیداری میں میرے پاس تشریف لائے تھے نہ کہ عالم خواب میں یہ اوریہ بھی کہتے ہیں وہ مکمل نماز جس کو ان کے شیخ نے تالیف کیا ہے وہ چالیس40