60%

نہ لوگوں کے اسرار کیاس حالت میں ہم لوگوں کے عیب نہیں چھپا پاتے، اپنے آپ کولوگوں کی غیبت سے نہیں روک پاتے۔۔۔(۱) ہم اپنے کانوں پر بھی اختیار نہیں رکھتے، جو چیز ہمارے کانوں کو اچھی لگے، مثلاً انہیں غیبت اچھی لگتی ہے، تو ہم بھی اسکے سامنے سر جھکا دیتے ہیں، انہیں لہو ولعب پسند ہے، توہم بھی تسلیم ہو جاتے ہیںہم اپنے ہاتھ پر اختیار نہیں رکھتے، اپنے پیر پر اختیار نہیں رکھتے، اپنے غصّے پر اختیار نہیں رکھتے، کہتے ہیں (خود میں بھی ایسے ہی لوگوں میں سے ہوں)

جناب!اب مجھے غصّہ آ گیا ہے، جو میرے منہ میں آئے گا کہہ ڈالوں گامجھے غصّہ آ گیا ہے، یعنی کیا؟ یعنی میں ایک ایسا آدمی ہوں جو اپنے نفس کا مالک نہیں ہوں، جوں ہی مجھے غصّہ آتا ہے،  میرا کنٹرول اسکے ہاتھ میں چلا جاتا ہے، جو میرے منہ میں آتا ہے، کہہ ڈالتا ہوں، کیونکہ میں غصّے میں ہوںایک اور شخص ہے، جو اپنی نفسانی خواہشات کا مالک نہیں ہوتاکیا انسان کو اپنے نفس کا مالک نہیں ہونا چاہئے؟ جب تک ہم اپنے نفس کے مالک نہ ہوں، کیا مسلمان ہو سکتے ہیں؟ نہیں، مسلمان کے لئے لازم ہے کہ وہ اپنے نفس کا مالک ہو۔

دوسرا درجہ: نفس کے خیالات کا مالک ہونا

یہاں تک ہم نے اس درجے کے بارے میں گفتگو کی، اب ہم اس سے بلندایک درجے پر چلتے ہیں۔ ہمیں اپنے نفس میں آنے والا خیالات کا، اپنے ضمیر کے خیالات کا مالک (ہونا چاہئے) اس مسئلے پر مکمل طور پر توجہ کی ضرورت ہے۔

ہم میں سے وہ لوگ جو اپنی آنکھ کے مالک ہیں، اپنی زبان کے مالک ہیں، مضبوط قوتِ ارادی کے مالک ہیں، اپنے ہاتھ کے مالک ہیں، اپنے پیر کے مالک ہیں، اپنی زبان کے مالک ہیں، اپنی شہوت کے مالک ہیں، اپنے غصّے کے مالک ہیں، وہ ایک چیزکے مالک نہیں ہیںہم لوگ جویہاں بیٹھے ہوئے ہیں، ہم میں سے کوئی ایک بھی فرد (اگر یہاں اولیا اﷲ موجود ہوں، تو مجھے نہیں معلوم ) اپنے ذہنی اور نفسانی خیالات کا مالک نہیں ہے

--------------

۱:-یہاں چند سیکنڈ کی تقریر ریکارڈ نہیں ہو سکی ہے۔