یٰاَیُّهَا الَّذِیْنَ ٰامَنُوا اسْتَعِیْْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِ
اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعے مدد مانگو۔ (سورہ بقرہ ۲آیت ۱۵۳)
ہم اپنی بحث کا آغاز اسی کلمے ”احیا“ سے کرتے ہیںجیسا کہ ہم نے عرض کیا ”احیا“ یعنی زندہ کرنا، اسکی ضد ”اماتہ“ہے، یعنی مارنا۔ اس لفظ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ رات، جو انسان کے وقت کا ایک حصہ ہے، اسکی دو حالتیں ہیں، ممکن ہے کسی کی شب زندہ ہو، اور ممکن ہے اسکی شب مردہ ہو۔ زندہ شب، وہ شب ہے جس میں انسان پوری رات، یا کم از کم اس رات کے ایک حصے کو ذکرِ الٰہی، مناجات اور ذاتِ پروردگار سے راز و نیاز میں بسر کرےاورمردہ شب، و ہ شب ہے جس میں انسان تمام رات پروردگارکی مقدس ذات سے غفلت اور فراموشی کی حالت میں رہے۔
ممکن ہے کوئی یہ خیال کرے کہ یہ تعبیر ایک مجازی تعبیر ہےایک قسم کا تکلف ہے۔ کوئی رات زندہ اور مردہ نہیں ہوتی، رات آخر رات ہے، وقت ہےوقت کاوہ حصہ جس میں کرہ زمین کا وہ نصف حصہ جس پر ہم زندگی بسر کرتے ہیں سورج کے سامنے نہیں ہوتا اور اس پر سورج کی روشنی نہیں پڑتی، اسے رات کہا جاتا ہے۔ رات بہر صورت رات ہے، رات کی نہ زندگی ہوتی ہے اور نہ اسکی موت۔
یہ بات صحیح ہےلیکن وہ شخص جو کہتا ہے کہ احیا، رات میں جاگتے رہنا، اسکی مراد یہ نہیں ہے کہ آپ وقت کے اس حصے کو جگاکے رکھئے، بلکہ جاگے رہنے سے مراد وقت کے اس حصے میں خود آپ کاجاگے ہونا ہے۔
اور زیادہ دقیق عبارت میں، جیسا کہ ابتداً تصور ہوتا ہے اسکے برخلاف، ہم خیال کرتے ہیں کہ وقت ایک چیز ہے جس کے اندر ہم سب داخل ہیں، جبکہ ایسا نہیں ہےوہ وقت جس کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ ہم سب اسکے اندر داخل ہیں، وہ ہمارا وقت نہیں ہےوہ وقت جس کی بنیاد پر ہم حساب لگاتے ہیں، گھنٹوں، منٹوں، ہفتوں، مہینوں اور سالوں کا حساب کرتے ہیں، وہ ہمارا وقت نہیں ہے، وہ اس زمین کا وقت ہےہمارا وقت ہمارے اپنے وجود سے متحد ایک حقیقت ہے، ہمارے وجود کا حصہ