40%

امام جعفر صادقؑ کی ایک حدیث

وہ جملہ جس سے ہم استدلال کر رہے ہیں، وہ اس کتاب میں ہےاور آپ نے اس جملے کو کم و بیش عرفانی کتب میں دیکھا ہو گاامام جعفر صادق علیہ السلام نے فضیل سے فرمایا:یا فُضَیلُ اَلْعُبودِیَّةُ جَوْ هَرَةٌکُنْهُهَاالرُّبوبِیَّةُ (انتہائی عجیب جملہ ہے، اور ایک لحاظ سے ہلا دینے والا جملہ بھی ہے) فضیل! کیا تم جانتے ہو کہ عبودیت کیا ہے؟ کیا جانتے ہو عبودیت کیسا گوہر ہے؟ عبودیت ایک ایسا گوہر ہے کہ اس کا ظاہر عبودیت ہے اور اس کا کنہ، نہایت اور باطن، اسکی آخری منزل اور ہدف ربوبیت ہے۔

ممکن ہے آپ کہیں کہ اس سے کیا مراد ہے؟ کیا امام جعفر صادق علیہ السلام یہ فرمانا چاہتے ہیں کہ عبودیت کی ابتدا بندگی ہے اور اسکی انتہا خدائی؟ کیا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ایک بندہ، بندگی کے راستے خدائی تک پہنچ جاتا ہے؟ نہیں، ائمہ علیہم السلام کی تعبیروں میں کسی صورت اس قسم کی کوئی تعبیر نہیں آ سکتیاہلِ عرفان دوسرے لوگوں پر طنز کرنے کے لئے، جو معانی نظر میں رکھتے ہیں، کچھ تعبیریں استعمال کرتے ہیں، تاکہ دوسرے ہل کے رہ جائیں، انہیں جھٹکا لگے، یہ ایک طرح سے لوگوں کوچھیڑناہوتا ہےمثلاً مولانا روم یا شبستری کے یہاں اس قسم کی تعبیریں ملتی ہیں، شبستری کہتے ہیں:

مسلمان گربدانستی کہ بت چیست

بدانستی کی دین در بت پرستی است

یہ انتہائی عجیب بات ہےلیکن اس سے مراد وہ نہیں ہے جو اسکے الفاظ سے ظاہر ہو رہی ہے۔ یہ شعرایک صحیح مراد کا حامل ہےایک مقام پر اُس نے کہا ہے کہ بقول خود اُس کے اُس نے زاہد نما افراد کوچھیڑا ہے ایک معروف شعر ہے، جسے مولانا روم سے منسوب کیا جاتا ہے، مجھے نہیں معلوم یہ مثنوی میں ہے یا نہیں۔ کہتے ہیں:

از عبادت می توان اﷲ شد

فی توان موسیٰ کلیم اﷲ شد