سے قاصر ہوتا ہے جھوٹا ہے وہ شخص جوکہ مجھے دوست رکھنے کا دعوی کرتا ہے مگر علی(ع) سے دشمنی رکھتا ہے۔
۹ـ امام صادق(ع) نے فرمایا کہ ایک دن رسول خدا(ص) نے جابر بن عبداﷲ اںصاری(رح) سے فرمایا اے جابر تم یقینا میرے فرزند محمد بن علی بن حسین بن علی(ع) سے ملاقات کرو گے جو توریت میں باقر(ع) کے نام سے مشہور ہیں جب تم ان سے ملو تو انہیں میرا سلام پہنچا دینا۔ چنانچہ جابر(رض) نے اپنی مدتِ حیات میں امام باقر(ع) کے زمانے تک پائی اور جب ان کی امام(ع) سے ملاقات ہوئی تو امام باقر(ع) ایک چھوٹے سے بچے تھے۔ اور اپنے والد جنابِ علی بن حسین(ع) کے پاس تشریف فرما تھے۔جابر(رض) نے جب انہیں دیکھا تو کہا اے بیٹے میرے پاس آئیں۔ جب امام باقر(ع) ان کے قریب آئے تو جابر(رض) نے کہا پیٹھ پھیریں جب امام(ع) نے اپنی پشت مبارک جابر(رض) کی طرف پھیری تو جابر(رض) نے کہا کہ پروردگار کعبہ کی قسم یہ رسول خدا(ص) کے شمائل ہیں پھر جابر نے علی بن حسین(ع) کی طرف رخ کر کے پوچھا کہ یہ کون ہیں تو جنابِ علی بن حسین(ع) نے فرمایا یہ میرے فرزند اور میرے بعد امام(ع) ہیں ان کا نام باقر(ع) ہے جابر(رض) یہ سن کر اٹھے اور امام باقر(ع) کے قدموں میں گر گئے اور ان کی قدم بوسی کے بعد کہا میری جان آپ(ع) پر قربان یا ابن رسول اﷲ آپ(ع) کے جد(ص) نے مجھے حکم دیا تھا کہ میں ان کا سلام آپ(ع) کو پہنچا دوں یہ سن کر امام(ع) کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور فرمایا اے جابر تم پر بھی میرے جد میرے والد جناب رسول خدا(ص) کا سلام ہو، تم پر ان کا سلام تب تک ہو جب تک یہ آسمان و زمین قائم ہیں۔ اے جابر یہ اس لیے ہے کہ تم نے ان کا سلام مجھ تک پہنچایا ہے۔
۱۰ـابن عباس کہتے ہیں جنابِ رسول خدا(ص) نے فرمایا کہ جب مجھے آسمان پر لے جایا گیا اور جبرائیل(ع) نےمجھے دریائے نور پر پہنچا دیا تو کہا قول خدا ہے کہ”خدا نے ظلمات اور نور کو بنایا۔“(انعام، ۱) پھر جبرائیل(ع) نے کہا اے محمد(ص) آپ(ص) خدا کی برکت سے اسے عبور کریں۔کہ خدا نےآپ(ص) کی آنکھوں کو منور کیا ہے اورآپ(ص)کے لیے راستہ کھول دیا ہےاوریہ وہ دریا ہے کہ جس سے آج تک کوئی نہیں گزرا، نہ ہی کوئی مقرب فرشتہ اور نہ ہی کوئی پیغمبر مرسل البتہ میں روزانہ ایک مرتبہ اس میں