6%

آسمان سے ستارے کا نزول

۴ـ          ابن عباس(رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک رات ہم نے جناب رسول خدا(ص) کے ہمراہ نماز عشاء ادا کی جب آںحضرت(ص) سلام سے فارغ ہوئے تو فرمایا آج طلوع فجر کے وقت آسمان سے ایک ستارہ تم میں سے کسی کے گھر اترے گا جس گھر میں وہ ستارہ اترے وہی میرا خلیفہ و وصی اور میرے بعد تمہارا امام(ع) ہے۔ جیسے ہی فجر کا وقت قریب آیا تو لوگوں نے دیکھنا شروع کیا اور دل میں یہ خواہش موجزن ہوگئی کہ یہ ستارہ اسی کے گھر میں اترے تمام لوگوں سے زیادہ یہ خواہش میرے والد عباس ابن عبدالمطلب(ع) کےدل میں تھی جب فجر کا وقت ہوا تو آسمان سے ایک ستارہ اترا جناب امیر(ع) کے گھر جا اترا تو جناب رسول خدا(ص) نے ارشاد فرمایا اے علی(ع) مجھے اس ذات کی قسم ہے جس نے مجھے نبوت کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے میرے بعد وصائیت و خلافت اور امامت تمہارے لیے واجب و لازم ہوگئی ہے یہ دیکھ کر منافقوں نے جب میں عبداﷲ بن ابی منافق بھی شامل تھا کہنا شروع کیا کہ محمد(ص) اپنے چچازاد بھائی کی محبت میں بہک گئے ہیں اور معاذ اﷲ گمراہ ہوگئے ہیں اور ان کی شان میں جو کچھ بھی کہتے ہیں خواہش نفسانی کی بنیاد پر کہتے ہیں جب منافقین نے اس طرح کہنا شروع کیا تو خدا نے یہ آیت نازل فرمائی۔” قسم ہے ستارے کہ جب کہ وہ اترا کہ گمراہ نہ ہوا اور نہ بہکا تمہارا صاحب( یعنی محبت علی بن ابی طالب(ع) میں) اور وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتا مگر یہ کہ اس پر وحی نازل ہوتی ہے( نجم، ۱ـ۴)

۵ـ          ایک دوسری روایت میں ستارے کے ظاہر ہونے  کو طلوع خورشید کے قریب بیان کیا گیا ہے ایک اور روایت میں اس موضوع کے متعلق ربیعہ سعدی کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس(رض) سے اس آیت ”والنجم اذا هویٰ“ کے بارے میں پوچھا تو ابن عباس(رض) نے کہا کہ اس سے مراد وہ ستارہ ہے جو طلوع فجر کے وقت اترا اور علی بن ابی طالب(ع) کے گھر پر جا ٹھہرا میرے والد عباس بن عبدالمطلب(ع) کی یہ شدید خواہش تھی  کہ یہ ستارہ ان کے گھر پر اترے تاکہ وصایت و خلافت و امامت  ان کے خاندان سے جاری ہوجائے لیکن یہ خدا کی مرضی نہ تھی کہ علی بن ابی طالب(ع) کے علاوہ کوئی اور اس کے فضل کو حاصل کرے اور یہ خدا کا فضل ہے وہ جسے چاہے عطا کرے۔