اگرچہ طاقت اور قوت سے کام لے کر ہم اپنا مقصد حاصل کر سکتے ہیں لیکن اس مقصد کے لئے محبت اور عشق سے استفادہ اور دل میں جاذبہ اور کشش پیدا کرنا ایک زیادہ موثر عامل ہے، جو زیادہ دیر پا محرکات پیدا کرتا ہےروایات میں بھی آیا ہے کہ:الحُبُّ افضَلُ مِنَ الخوف (محبت خوف سے بہتر ہےبحار الانوارج ۷۵ص ۲۲۶)
اہلِ بیت ؑ سے ہمارے تعلق کی بنیاد کیا ہے اور اس تعلق کو کس بنیاد پر قائم ہونا چاہئے؟
کیا یہ حاکم ومحکوم اور حکمراں ور عیت کا سا تعلق ہے؟
یا استاد اور شاگرد کے درمیان قائم تعلیم و تعلم کے تعلق کی مانند ہے؟
یا یہ تعلق محبت و مودت اور قلبی اور باطنی رشتہ ہے؟ جو کارآمد بھی ہوتا ہے، دیرپا بھی اور گہرا بھی۔
قرآنِ کریم اس تعلق کی تاکید کرتا ہے اور مودتِ اہلِ بیت ؑ کو اجرِ رسالت قرار دیتا ہے:
قُلْ لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ
کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغِ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا، سوائے اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کروسورہ شوریٰ ۴۲آیت ۲۳