33%

بے عفتی کے خلاف پیغمبر اسلام کا شدید موقف

پیغمبر اسلام معاشرے کی عفت وناموس کی حفاظت کے سلسلے میں انتہائی حساس تھےآپ ؐنے بارہا فرمایا کہ: کانَ ابراھیمُ اَبیغَیوراً وانا اَغْیَرُ مِنْهُ، وارْغَمَ اللّٰهُ انْفَ مَنْ لا یُغارُ (میرے باپ! ابراہیم بہت غیرت مند تھے اور میں ان سے زیادہ غیرت مند ہوںخداوند ِعالم بے غیرت انسان کی ناک خاک پر رگڑ دیتا ہےبحار الانوارج۱۰۳ص۲۹۳)

اس حوالے سے درجِ ذیل دو قصے ملاحظہ فرمائیں:

۱مروان بن حکم کا باپ اور حضرت عثمان کا چچا حکم بن ابی العاص مہاجر مسلمان ہونے کے باوجود دوسروں کی عزت وناموس پر بری نظر رکھتا تھاایک روز اس نے مدینہ میں پیغمبر اکرم ؐکے گھر کے دروازے سے آنحضرت ؐکے گھر میں جھانکاآنحضرؐت کو اس کے اس گھناؤنے عمل کی خبر ہوگئی اور آپ ؐاس قدر ناراض ہوئے کہ آپ نے ایک کمان اٹھالی تاکہ اس کے ذریعے اسے تیر کا نشانہ قرار دیںلیکن وہ بھاگ کھڑا ہوا اور چھپ گیا(سفینتہ البحارج۱ص۲۹۳)

ایک دوسری روایت کے مطابق آنحضرتؐ نے خمیدہ سر کی ایک لاٹھی، جس کی نوک تیز تھی اٹھائی اور اسکے پیچھے دوڑے، وہ سر پٹ دوڑا اور آنحضرؐت کی پہنچ سے نکل گیاآنحضورؐ نے فرمایا: اگر وہ میرے ہاتھ آجاتا تو اس کی آنکھیں نکال لیتااس کے بعد آپ نے حکم دیا کہ حکم اور اسکے بیٹے مروان کو جلا وطن کرکے طائف بھیج دیا جائے۔

یہ دونوں پیغمبر اسلامؐ کے زمانے میں اور پھر اسکے بعد حضرت عمر اور حضرت ابو بکر کے ادوارِ خلافت میں جلاوطنی کی زندگی بسر کرتے رہےلیکن حضرت عثمان کے دورِ خلافت میں حضرت عثمان کی وساطت سے مدینہ لوٹ آئےحضرت عثمان پر مسلمانوں نے جو اعتراضات کیے ان میں سے ایک شدید اعتراض یہ تھا کہ آپ نے ان لوگوں کو واپس کیوں بلایا جنہیں پیغمبر اسلامؐ نے جلا وطن کیا تھا(الغدیرج۸ص۲۴۳، اسد الغابہ ج۲ص۳۳)