جھوٹی گواہی یا کسی ناحق بات کی تائید تہمت کہلاتی ہے جو ایک گناہِ کبیرہ اور حقوق العباد کی خلاف ورزی ہے اور جسے آیات وروایات کی زبان میں بہتان کہا گیا ہے، جو گناہ پر گناہ کا اضافہ ہےکیونکہ یہ جھوٹ بھی ہے اور اس کی گواہی دینا حق کو باطل اور باطل کو حق ظاہر کرنا ہےاس طرـح یہ عمل دوسروں کے حقوق کی پامالی کا باعث بنتا ہے۔
جھوٹی گواہی اس قدر ناپسندیدہ اور فتنہ وفساد انگیز عمل ہے کہ قرآنِ کریم نے اسکا ذکر بت پرستی کے ساتھ کیا ہے اور شدت کے ساتھ اسکی ممانعت کی ہے، فرمانِ الٰہی ہے:فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ (لہٰذا تم ناپاک بتوں سے پرہیز کرتے رہو اور جھوٹی گواہی سے اجتناب کرتے رہوسورئہ حج۲۲آیت۳۰)
تہمت اور بہتان جو جھوٹی گواہی بھی ہے، ایمان پر اس قدر تباہ کن اثرات مرتب کرتی ہے کہ بقول امام جعفر صادق علیہ السلام:اذا اتّهَمَ المؤْمِنُ اَخَاهُ، انمات الایمانُ فی قلبِهِ، کما یَنماتُ الملحُ فی الماء (اپنے برادرِ ایمانی پر تہمت لگانے والے شخص کے دل سے ایمان اس طرح گم ہوجاتا ہے جیسے پانی میں نمک غائب ہوجاتا ہےوسائل الشیعہ ج۸ص۶۱۳)
یہی وجہ ہے کہ کسی کے لیے نقصاندہ ثابت ہونے والی تہمت پر خدا کی طرف سے انتہائی سخت سزا اور شدید عذاب ِآخرت ہےابن یعفور نقل کرتے ہیں کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: ایسا شخص جو کسی مومن مرد یا عورت پر تہمت لگائے اور اُسکی طرف کوئی ایسی صفت منسوب کرے جو اُس میں نہ پائی جاتی ہو، تو خداوند ِعالم اسے روز ِقیامت بدبودار پانی سے نکالے گا(وسائل الشیعہ ج۸ص۶۰۳)