حضرت علی علیہ السلام بھی اپنی زندگی کے ہر پہلو میں انتہائی حد تک تواضع و انکساری کو ملحوظ رکھتے تھےآپؑ اِس قدر فروتن اور خاکسار تھے کہ پیغمبر اسلامؐ نے آپ ؑکو ابو تراب کہا اور آپ ؑکو پسند تھا کہ لوگ آپ ؑکو اِس نام سے پکاریں۔
تاریخ میں آیا ہے کہ ” غزوہ عُشَیرہ“ کے موقع پر جب اسلامی سپاہ محاذ پر پہنچیں اور دشمنوں اور شرپسندوں کو اِس علاقے سے نکال دیا تو حضرت عماریاسر کے بقول:ہم اس محاذ پر ایک بیابان میں تھےحضرت علی ؑنے مجھ سے فرمایا:کیا آپ چاہتے ہیں کہ ان کسانوں کے پاس چلیں جو (اس علاقے کے نزدیک) اس چشمے کے کنارے کام میں مشغول ہیں اور ان کے کام کرنے کا طریقہ دیکھیں؟ میں نے رضا مندی کا اظہار کیا اور ہم اکھٹے اُس جگہ گئے اور قریب سے اُن کے کام کرنے کا انداز دیکھاپھر ان کے نزدیک ہی کھجور کے درختوں کے ایک جھنڈ تلے آرام کی غرض سے زمین پر لیٹ کے سوگئےپیغمبر اسلامؐ نے آکر ہمیں بیدار کیا اور حضرت علیؑ سے فرمایا:اے ابو تراب اٹھ بیٹھئے۔ علی ؑاٹھ کھڑے ہوئے اور اپنے لباس پر لگی ہوئی گردوغبار کوجھاڑااِس طرح علی ؑاِس لقب سے معروف ہوگئے۔ (کحل البصر۔ ص۱۹۳۔ ازمحدث قمی)
حضرت علی علیہ السلام کی حیات طیبہ کا ایک دلچسپ اور سبق آموز قصہ وہ ہے جسے امام حسن عسکری علیہ السلام نے بیان فرمایا ہے، فرماتے ہیں: ایک باپ اور اسکا بیٹا حضرت علیؑ کی خدمت میں حاضر ہوئے (یہ بات پیش نظر رہے کہ یہ زمانہ آپؑ کا دورِ خلافت تھا) حضرتؑ نے انہیں اپنا مہمان بنایا۔ انہیں صدرِ مجلس میں جگہ دیخود انتہائی انکساری کے ساتھ ان کے سامنے تشریف فرما ہوئے اور کھانا لانے کو کہاکھانا لایا گیا اور مہمانوں نے اسے تناول کیااس کے بعد قنبر لوٹا اور لگن لے کر حاضر ہوئے تاکہ ان کے ہاتھ دھلا دیںحضرت علیؑ، باپ کے ہاتھ دھلانے کے لیے خود کھڑے ہوئےاس نے جب یہ دیکھا تو اس بات پر تیار نہ ہوا اور شدید اصرار کیا کہ آپؑ اس کے ہاتھ نہ دھلائیںلیکن حضرت علیؑ راضی نہ ہوئے اور بالآخر پانی ڈال کر اسکے ہاتھ دھلوائے۔