33%

قرآنِ کریم سے درست استفادہ

قرآنِ کریم خداوند ِعالم کے خاص اور ممتاز بندوں کی گیارہویں امتیازی خصوصیت کے بارے میں فرماتا ہے:

وَالَّذِيْنَ اِذَا ذُكِّرُوْا بِاٰيٰتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِـرُّوْا عَلَيْهَا صُمًّا وَّعُمْيَانًا

اور جب ان لوگوں کو آیات ِالٰہی کی یاد دلائی جاتی ہے تو بہرے اور اندھے ہوکر نہیں گرپڑتے ہیںسورئہ فرقان۲۵آیت ۷۳

یہ خصوصیت، خدا کے ممتاز بندوں کی اہم ترین خصوصیت اور سب سے بڑی نشانی ہےوہ قرآنِ کریم سے، اس عظیم ترین آسمانی کتاب اور پیغمبر اسلام کے یگانہ دائمی معجزے سے گہرا اور مضبوط نظری اور عملی تعلق رکھتے ہیں اور اُن کا یہ تعلق اِس قدر موثر ہوتا ہے کہ قرآنِ کریم کی تعلیمات اُن کے طرزِ عمل میں نمایاں نظر آتی ہیں۔

امام محمد باقر علیہ السلام نے اِسی اور اِسی طرح کی دوسری آیات ِقرآنی کی بنیاد پر فرمایا ہے کہ: قرآن کے قاری تین قسم کے ہوتے ہیں: ایک وہ لوگ جو قرآن کی تلاوت کرتے ہیں لیکن اسے مادّی امور کے حصول کا وسیلہ اور بادشاہوں سے تعلقات کے قیام کا ذریعہ بناتے ہیں، اور اس کے ذریعے لوگوں کے سامنے اپنی بڑائی جتاتے اور خودنمائی کرتے ہیںدوسری قسم کے قاری وہ ہوتے ہیں جو تلاوت کے دوران حروف (اور تجوید) کی حفاظت کرتے ہیں، لیکن اسکے حدود و قوانین کو قدموں تلے روندتے ہیںخداوند ِعالم ایسے لوگوں میں اضافہ نہ کرےتیسری قسم کے قاریانِ قرآن وہ ہیں جو قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور قرآن کی دوا سے اپنے بیمار دل کا علاج کرتے ہیں (اور قرآن کو اپنی روحانی بیماریوں کے علاج کا ذریعہ بناتے ہیں) اسکے ساتھ شب بیداری کرتے ہیں اور دن کو تشنگی (روزے کی حالت) میں بسر کرتے ہیںقوﷲ لهو لاء فی قُرّاء القرآنِ اعزُّ مِنَ الکبریتِ الاحمرِ (اور خدا کی قسم قرآن کے قاریوں کے درمیان اس قسم کے لوگ سرخ گندھک سے بھی زیادہ کمیاب ہیں اصولِ کافی ج۲ص۶۲۷)