33%

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: ایک دن حضرت علی علیہ السلام سواری پر سوار کہیں سے گزررہے تھےآپؑ کے چند اصحاب آپ کے پیچھے پیچھے چلنے لگےآپؑ نے ان اصحاب کی طرف رخ کیا اور فرمایا: کیا تم لوگوں کی کوئی حاجت ہے؟ ان لوگوں نے عرض کیا: نہیں، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ آپؑ کے ہمراہ اسی طرح چلیں آپؑ نے فرمایا:انصرفواوار جعو ا، النعال خلف اعقاب الرّجال مفسدة للقلوب (جائو، واپس چلے جائو، اس طرح لوگوں کے پیچھے پیچھے چلنا(ان کے) قلوب کی تباہی کی وجہ بن جاتا ہےمناقب ابن شہر آشوب ج۲۔ ص۱۰۴)

یعنی ممکن ہے یہ عمل اس شخص کو خود پسندی میں مبتلا کردے جس کے ساتھ یہ طرزِ عمل اختیار کیا جارہا ہے اور اس سے عاجزی وانکساری کی خصلت چھین لے اور نتیجے میں معنوی لحاظ سے اسکی روح اور قلب تباہ اور بیمار ہوجائے۔

جی ہاں! پیغمبر اسلاؐم، حضرت علیؑ اور دیگر اولیا اللہ اسی قدر منکسرالمزاج تھے، عمدہ اخلاق اور نیک خصائل کا احترام کیا کرتے تھے اور عبادالرحمٰن کی اس اوّلین خصلت کو اہمیت دیتے تھے۔

مثبت اور منفی انکساری

البتہ حدود کا پیش نظر رکھنا ضروری ہے اور یہ علم بھی ہونا چاہیے کہ ذلت اور انکساری کے درمیان بہت باریک فرق ہےلہٰذا بہت سے افراد غلط فہمی کی بنا پر تواضع و انکساری کے نام پر ذلت کا گناہ کربیٹھتے ہیں، جسے ہم منفی تواضع و انکساری کا نام دے سکتے ہیں اس قسم کی منفی تواضع و انکساری سے اسلام شدت کے ساتھ روکتا ہےقرآنِ کریم ممتاز بزرگ ہستیوں کی توصیف کرتے ہوئے فرماتا ہے:اَذِلَّةٍ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ اَعِزَّةٍ عَلَي الْكٰفِرِيْنَ (یہ لوگ مومنین سے نرمی برتتے ہیں اور کفار کے مقابل سخت ہوتے ہیں۔ سورہ مائدہ ۵۔ آیت ۵۴)