ایک شخص نے امیر المومنین ؑسے سوال کیا: ہماری دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں؟ امام ؑنے اسے جواب دیا: تم نے خدا کو پہچانا ہے، لیکن اس کا حق ادا نہیں کیارسول پر ایمان لائے ہو، لیکن اُن کے فرامین واحکام کی پیروی نہیں کیآیات ِالٰہی کی تلاوت کی ہے، لیکن ان کی تعلیمات پر عمل نہیں کیازبان سے کہا ہے کہ آتشِ جہنم سے ڈرتے ہو، لیکن تمہارا کردار آتشِ جہنم میں داخلے کا موجب ہوتا ہےزبان سے کہتے ہو کہ تمہیں جنت پسند ہے، لیکن اپنے عمل سے جنت سے دور ہو گئے ہوخدا کی نعمتوں سے استفادہ کیا ہے، لیکن ان کا شکر ادا نہیں کیاخدا فرماتا ہے کہ شیطان سے دشمنی رکھو، تم نے اپنی زبان سے تو اس سے دشمنی کا اظہار کیا ہے، لیکن عمل سے اس سے دوستی کی ہےتم نے دوسرے لوگوں کے عیب تو دیکھے ہیں، لیکن اپنے عیبوں کو نظر انداز کیا ہےاگر تمہاری نیت خالص ہو اور تم امر بالمعروف ونہی عن المنکر کرو، تو تمہاری دعائیں قبول ہوں گی(سفینۃ البحارج۱ص۴۴۹)
ایسی بکثرت روایات موجود ہیں، جن میں دعا کی قبولیت کے لیے اس کی شرائط فراہم کرنے کی جانب اشارہ کیا گیا ہےلہٰذا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمیں بے سوچے سمجھے اور صرف بظاہر دعا کرنے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیےبلکہ دعا کے مضمون ومشمولات اور شرائط پر بھی توجہ دینی چاہیے، تاکہ اس عمل سے بھرپور اور مکمل استفادہ کیا جاسکے۔
زیر بحث آیت (سورئہ فرقان کی آیت۷۴) میں واضح کیا گیا ہے کہ خدا کے ممتاز اور خاص بندے وہ لوگ ہیں جو دعا کرتے ہیں اور دعا کے ذریعے خدا کے سامنے اپنی ان تین خواہشات کا اظہار کرتے ہیں۱اچھی بیوی۲: صالح اولاد۳: لوگوں کے پیشوا، رہنما اور ان کے لیے نمونہ عمل کامقام۔