22%

جزاو پاداش

جزاو پاداش، بالفاظِ دیگر جزا اور مکافات ِعمل کا مسئلہ خداوند ِعالم کے قطعی تکوینی اور تشریعی قوانین میں سے ہے، جو اچھے یا برے عمل کی مناسبت سے ان اعمال کو انجام دینے والے پر دنیا اور آخرت میں مختلف شکلوں میں اثر انداز ہوتا ہے۔

قرآنِ کریم میں اس بارے میں بکثرت آیات موجودہیں، یہ یقینی امور میں سے ہے اور اسکے وقوع پذیر ہونے میں کسی قسم کے شک وتردید کی گنجائش نہیں۔

اگر ہم قرآنِ مجید میں مختلف انداز سے سیکڑوں بار استعمال ہونے والے لفظ ” جزا“ کا جائزہ لیں، تو بخوبی اس بات کا علم حاصل کریں گے کہ دنیاوی اور اُخروی جزا کا مسئلہ قرآنِ مجید میں بیان ہونے والے مسلمہ امور میں سے ہے اور خداوند ِعالم نے انتہائی زور دے کر اس کا تذکرہ کیا ہے، تاکہ پیروانِ قرآن اس قطعی قانون کو کسی صورت فراموش نہ کریں اور اس سے غفلت نہ برتیں۔

مثال کے طور پر اگر ہم قرآنِ کریم کی سورئہ نبا کا مطالعہ کریں، تو وہاں دیکھیں گے کہ اس سورے کی آیت ۲۱ سے لے کر ۳۰ تک میں، نہایت واضح الفاظ کے ساتھ اہلِ جہنم کی سزاؤں کا ذکر کیا گیا ہےاور آیت نمبر ۳۱ سے ۳۶ تک میں اہلِ جنت کی جزا وپاداش کا تذکرہ کیا گیا ہے۔

اسی سورے کی آیت ۲۶ میں فرمان الٰہی ہے:جَزَاءً وِّفَاقًا (یہ اُن کے اعمال کے موافق ومناسب بدلہ ہے)اسی سورے کی آیت ۳۶ میں خدا فرماتا ہے:جَزَاءً مِّنْ رَّبِّكَ عَطَاءً حِسَابًا (یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے حساب کی ہوئی عطا ہے اور تمہارے اعمال کی جزا ہے) لہٰذا انسان جو کوئی بھی عمل انجام دیتا ہے، وہ خداوند ِعالم کے دقیق اور ٹھیک ٹھیک حساب میں ثبت اور درج ہوجاتا ہے اور تمام اچھے برے اعمال کے مقابل مناسب جزا یا سزا مقرر ہے۔