قرآنِ مجید، خداوند ِعالم کے ممتاز بندوں کی دوسری خصوصیت کے بارے میں فرماتا ہے کہ:وَاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا (اور جب جاہل ان سے (نامناسب انداز سے) خطاب کرتے ہیں تو یہ لوگ ان کے جواب میں انہیں سلامتی کا پیغام دیتے ہیںسورئہ فرقان۲۵۔ آیت۶۳) یعنی ان کے سامنے سے، بے اعتنائی اور بزرگواری کے ساتھ گزرجاتے ہیںمراد یہ ہے کہ ان لوگوں میں تحمل وبردباری کی صفت پائی جاتی ہے اور انہیں اپنے اعصاب اور جذبات و احساسات پر قابو ہوتا ہے۔
ان لوگوں کا وصف یہ ہے کہ نامعقول افراد کے رویے کے مقابل بردباری اور ضبط ِ نفس سے کام لیتے ہوئے، اسلامی اخلاق کی حدوں سے باہر نہیں نکلتےعظمت ِکردار اور بزرگواری کی بدولت غیظ وغضب سے مغلوب نہیں ہوجاتےان کے مضبوط ارادے، ان کے صبرو تحمل اور سکون و اطمینان کی بنا پر انہیں پہاڑ سے تشبیہ دی جاتی ہے۔
یہ کہنا کوئی فخر کی بات نہیں کہ فلاں نے مجھ پر اعتراض کیا، مجھے برابھلا کہا، تو اس کے جواب میں، میں نے اسے دس گنازیادہ سنا ڈالیںبلکہ قرآنِ کریم کی رو سے فخر و افتخار کی بات یہ ہے کہ ہم نامعقول لوگوں کے نامناسب رویے کے جواب میں ان کی اس حرکت کو نظر انداز کردیں۔ یعنی لڑائی جھگڑے سے پرہیز کریں اور درگزر سے کام لیتے ہوئے ا ن کی طرف سے منھ پھیر لیں۔
البتہ جس سلام کا یہاں (آیت میں) ذکر ہورہا ہے وہ دوستی والاسلام نہیں، بلکہ بے اعتنائی والا سلام ہے، ایک طرح کے اعتراض اور ناراضگی کا اظہار ہے جس میں تعلق برقرار رکھتے ہوئے صلح و صفائی کے ساتھ مل جل کر رہنے کا پیغام موجود ہے۔
ممکن ہے اس مقام پر یہ سوال پیش آئے کہ قرآنِ کریم اور روایات ِمعصومینؑ میں متعدد مقامات پر مخالفین کو برابری سے جواب دینے کی تاکید کی گئی ہےتاکہ ان ناشائستہ لوگوں کی گستاخی کا سدباب ہوسکےمثلاً قرآنِ مجید فرماتا ہے:فَمَنِ اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰى عَلَيْكُمْ (لہٰذا جو کوئی تم پر زیادتی کرے تو تم بھی اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرو جیسی زیادتی اس نے تمھارے ساتھ کی ہے۔ سورئہ بقرہ ۲آیت۱۹۴)