22%

عباد الرحمٰن کی ان بارہ خصوصیات سے صبر کا تعلق

متعدد روایات میں ہے، اور خود رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے بھی نقل کیا گیا ہے کہ آپ ؐنے فرمایا:

صَبْرٌ عندَ المُصیبَةِ، وَصَبْرٌ الطّاعةِ، وَصَبْرٌ عَلَی الْمَعصیةِ

صبر کی تین قسمیں ہیں: مصیبت کے موقع پر صبر، اطاعت کی راہ میں صبر اور گناہ کے مقابل صبر

یہی حدیث حضرت علی علیہ السلام سے بھی نقل ہوئی ہے، اور اس کے آخر میں یہ بھی ہے کہ:

گناہ کے مقابل صبر، ان دو پہلی قسموں کی نسبت زیادہ بلند درجہ رکھتا ہے(اصولِ کافی ج۲ص۱۹۱، میزان الحکم ۃج۵ص۲۶۷)

امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے ایک دوسری روایت میں فرمایا ہے کہ:

الصَّبْرُ صَبْرانِ، صَبْرٌ عِنْدَالْمُصیبَةِ، حَسَنٌ جَمیلٌ، وأَحْسنُ مِنْ ذلکَ الصَّبرُ عِنْدَ ماحَرَّمَ اللّٰهُ عَزَّوجلّ عَلَیکَ

صبر دو طرح کا ہے: مصائب ومشکلات کے سامنے صبر، کہ یہ صبر خوبصورت اور عمدہ ہے اور اس صبر سے زیادہ عمدہ ان امور کے مقابل صبر ہے جنہیں خداوند ِعالم نے حرام قرار دیا ہےاصولِ کافی ج۲ص۹۰

ان دو احادیث کی رو سے صبر واستقامت کی وہی تین جڑیں اور بنیادیں ہیں۔

جب ہم خدا کے نزدیک امتیازی مقام رکھنے والے بندوں کی ان بارہ خصوصیات کا جائزہ لیتے ہیں اور ان پر گہرا غور وفکر کرتے ہیں، تو یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی خصوصیت صبر واستقامت کے بغیر حاصل نہیں ہوتی، اور ان بارہ خصوصیات کے حصول کے لیے صبرو استقامت کی مدد لینے کے سوا کوئی اور چارہ نہیں کیونکہ جیساکہ ہم نے پہلے کہا ہے، ان میں سے چار خصوصیات منفی پہلو کی حامل ہیں