قرآنِ کریم خداوند ِرحمان کے خاص اور ممتاز بندوں کی پانچویں خصوصیت کے بارے میں فرماتا ہے:
وَالَّذِيْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ يُسْرِفُوْا وَلَمْ يَـقْتُرُوْا وَكَانَ بَيْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا
یہ لوگ وہ ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ اسراف (فضول خرچی) کرتے ہیں اور نہ بخل (کنجوسی) سے کام لیتے ہیں، بلکہ ان دونوں کے درمیان، اعتدال اور میانہ روی کا راستہ اپناتے ہیںسورہ فرقان ۲۵۔ آیت ۶۷
اس آیت میں زندگی کے ایک اہم ترین مسئلے کا ذکر کیا گیا ہے، جسے ملحوظ او رپیش نظر رکھنا فرد اور معاشرے کی آسائش، فلاح اور اطمینان کا باعث ہے اور بہت سی سماجی اور اقتصادی مشکلات کے حل اور خرابیوں کی اصلاح کا ذریعہ ہےیہ اہم ترین مسئلہ خرچ میں اعتدال اور میانہ روی ہے۔
اعتدال، یعنی میانہ روی، یعنی حد سے زیادہ بڑھنے اور حد سے کم ہونے کی درمیانی لکیراسلام تمام امورومعاملات میں اس طرزِ عمل کو پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ قرآنِ کریم میں اسلام کی پیروی کی وجہ سے مسلمانوں کو امت ِوسط، یعنی معتدل امت کہا گیا ہےارشادِ قدرت ہے:وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا (اور اس طرح ہم نے تمہیں امت ِوسطہ قرار دیا ہےسورئہ بقرہ ۲۔ آیت ۱۴۳)
حضرت علی علیہ السلام نے ان لوگوں کو جاہل قرار دیا ہے جو اعتدال سے نکل کر افراط یا تفریط کا شکار ہوجاتے ہیں آپ ؑفرماتے ہیں:لَاتَرَی الجاهلَ اِلَّا مُفرطاً اُو مفرّ طا (جاہل کوہمیشہ افراط یا تفریط کا شکار دیکھو گےنہج البلاغہ۔ کلمات قصار۷۰)