بسم اللہ الرحمن الرحیم ۔ اس خدا کا فیصلہ ہے جواس نے کتاب میں لکھ دیا ہے کہ وہ مکہ والوں میں ایک رسول بھیجنے والا ہے جو انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے گا، اللہ کا راستہ دکھائے گا اور نہ بداخلاق ہوگا اور نہ تند مزاج اور نہ بازاروں میں چکر لگانے والا ہوگا، وہ برائی کا بدلہ برائی سے نہ دے گا بلکہ عفو و درگذر سے کام لے گا، اس کی امت میں وہ حمد کرنے والے ہوں گے جو ہر بلندی پر شکر پروردگار کریں گے اور ہر صعود و نزول پر حمد خدا کریں گے، ان کی زبانیں تہلیل و تکبیر کے لئے ہموار ہوں گی۔
خدا اسے تمام دشمنوں کے مقابلہ میں امداد دے گا اور جب اس کا انتقال ہوگا تو امت میں اختلاف پیدا ہوگا، اس کے بعد پھر اجتماع ہوگا اور ایک مدت تک باقی رہے گا، اس کے بعد ایک شخص کنارہ فرات سے گذرے گا جو نیکیوں کا حکم دینے والا اور برائیوں سے روکنے والا ہوگا، حق کے ساتھ فیصلہ کرے گا اور اس میں کسی طرح کی کوتاہی نہ کرے گا ، دنیا اس کی نظر میں تیز و تند ہواؤں میں راکھ سے زیادہ بے قیمت ہوگی اور موت اس کے لئے پیاس میں پانی پینے سے بھی زیادہ آسان ہوگی، اندر خوف خدا رکھتا ہوگا اور باہر پروردگار کا مخلص بندہ ہوگا خدا کے بارے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے خوفزدہ نہ ہوگا۔
اس شہر کے لوگوں میں سے جو اس نبی کے دور تک باقی رہے گا اور اس پر ایمان لے آئے اس کے لئے جنت اور رضائے خدا ہوگی اور جو اس بندہ نیک کوپالے اس کا فرض ہے کہ اس کی امداد کرے کہ اس کے ساتھ قتل شہادت ہے اور اب میں آپ کے ساتھ رہوں گا اور ہرگز جدا نہ ہوں گا یہاں تک کہ آپ کے ہر غم میں شرکت کرلوں۔
یہ سن کر حضرت علی (ع) رو دیے اور فرمایا کہ خدا کا شکر ہے کہ اس نے مجھے نظر انداز نہیں کیا ہے اور تمام نیک بندوں کی کتابوں میں میرا ذکر کیا ہے۔
راہب یہ سن کر بے حد متاثر ہوا اور مستقل امیر المومنین (ع) کے ساتھ رہنے لگا یہاں تک کہ صفین میں شہید ہوگیا تو جب لوگوں نے مقتولین کو دفن کرنا شروع کیا تو آپ نے فرمایا کہ راہب کو تلاش کرو۔ اور جب مل گیا تو آپ نے نماز جنازہ ادا کرکے دفن کردیا اور فرمایا کہ یہ ہم اہلبیت (ع) سے ہے اور اس کے بعد بار بار اس کے لئے استغفار فرمایا۔ (مناقب خوارزمی ص 242 ، وقعة صفین ص 147)۔