ایک شخص مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: اے امیر المومنین! مجھے نصیحت فرمایئےحضرت ؑ نے اُسے کئی نصیحتیں کیںان نصائح کے پہلے دو جملے آپ کی خدمت میں عرض کرتا ہوںہمارے لئے فی الحال یہی دو جملے کافی ہیں فرمایا:لاَ تَکُنْ مِمَّنْ یَرْجُواالْآخِرَةَ بِغَیْرِ عَمَلٍ وَ یُرَجِّی التَّوْبَةَ بِطولِ الْاَمَلِیَقُوْلُ فِی الدُّنْیَا بِقَوْلِ الزَّاهِدِیْنَ وَ یَعْمَلُ فِیْهَا بِعَمَلِ الرَّاغِبِیْنَ (۱)
فرمایا: تمہیں میری نصیحت یہ ہے کہ، تم اُن لوگوں میں سے نہ ہونا جو آخرت کی امید رکھتے ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ بغیر عمل کئے آخرت حاصل کرلیںہم سب لوگوں کی طرحہم بھی کہتے ہیں کہ علی ابن ابی طالب ؑ کی محبت کافی ہے، جبکہ ہماری محبت بھی سچی محبت نہیں ہے، اگر ہماری محبت سچی ہوتی تو اس کے ساتھ ساتھ عمل بھی ہوتاہم کہتے ہیں کہ (علی ؑ سے) یہی ظاہری تعلق کافی ہے! ہم سمجھتے ہیں کہ علی ؑ ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں (محبت کرنے والوں کی) ضرورت ہے، اور اگر کچھ لوگ ان سے جھوٹ موٹ کا تعلق رکھیں تو یہ بھی کافی ہے، ہمیں سرِ دست دکھاوے کے لئے لشکر کی ضرورت ہے، دکھاوے کے لئے یہی لشکری کافی ہیں
--------------
1:- تمہیں اُن لوگوں میں سے نہیں ہونا چاہئے جو عمل کے بغیر حسنِ انجام کی امید رکھتے ہیں اور امید بڑھا کر توبہ میں تاخیر کرتے ہیں جو دنیا میں زاہدوں کی سی باتیں کرتے ہیں مگر اُن کے اعمال دنیا طلب لوگوں جیسے ہوتے ہیں (نہج البلاغہ کلماتِ قصار۱۵۰)