زیارات کی عبارتوں سے ظاہر ہے۔
ہم حضرت مہدی ارواحنا لہ الفداء کے فضائل کے بیان میں اسی قدر پر اکتفاء کرتے ہیں۔ جو کچھ بیان ہوا ۔ اس کی روشنی میں آپ کی ذات اقدس آنچہ خوبان ہمہ دارند تو تنہا داری کے مصداق ہے۔ شاید اسی وجہ سے پیغمبر اکرم(ص) نے ارشاد فرمایا ہے۔ “ معراج کی رات میں نے بارہ انوار کی ساق عرش پر دیکھا ان میں سے بارہواں نور ان کے درمیان اس طرح تھا جیسے ستارون کے درمیان چاند دمکتا ہو۔
2ـ حضرت مہدی عجل اﷲ تعالی فرجہ الشریف کا وجود مبارک ایک معجزے سے کم نہیں اس قسم کے خارق عادت و صفات دینا میں بہت ملتے ہیں ہمیں حضرت مہدی علیہ السلام کے واقعے کو ایک عام واقعہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ جس کی توجیہ و تفسیر کی جاسکے۔ قرآن کریم بھی خارق عادت واقعات بہت بیان کرتا ہے۔ اگر کوئی یہ کہہ دے کہ ہم حضرت بقیة اﷲ کے وجود کو صرف اس لیے قبول کرتے ہیں کہ قرآن میں اس قسم کے واقعات ملتے ہیں اور اس واقعے کو بھی ان پر قیاس کیا جائے تو یہ کچھ بعید نہیں۔ قرآن کریم حضرت عیسی علیہ السلام کے واقعے کو نقل کرتا ہے کہ آپ نے گہوارے میں لوگوں سے یوں کہا۔
“ بے شک میں اﷲ کا بندوں ہوں اﷲ نے مجھے کتاب وی مجھے نبی بنایا اور میں جہاں کہیں بھی ہوں مجھے مبارک قرار دیا مجھے زندگی بھر نماز قائم کرنے اور زکوة ادا کرنے کی وصیت کی اور یہ کہ اپنی والدہ کے ساتھ نیکی کروں۔ مجھے ظالم اور بد بخت خلق نہیں کیا۔ درود ہو مجھ پر اس دن جب پیدا ہو جاؤں، اس دن جب مرجاؤں اور اس دن جب دوبارہ زندہ ہو کر مبعوث کیا جاؤں۔”
اگر ہم حضرت مہدی عجل اﷲ فرجہ الشریف کے معاملے میں بھی یہ کہہ دیں کہ انہوں نے پیدا ہوتے ہی قرآن پڑھا، حالت طفلی میں بھی امام علیہ السلام تھے تو دل تنگ کرنے والی بات نہیں کی جب کہ