گویا اس آیت شریفہ میں ارشاد ہوتا ہے کہ خداوند عالم کا دستور یہ رہا ہے کہ فرعون اور فرعون صفت لوگ مظلوم عوام کے ہاتھوں نابود ہوتے ہیں اور نابود ہوں گے اور آخر کار کمزوروں کے تابع ہوجائیں گے اور ظالم اپنے ٹھکانوں میں پہنچیں گے ہمیں اس تاریخی واقعے کو بعید ازعقل نہیں سمجھنا چاہئے اس کی جڑیں قرآن میں مضبوطی کےساتھ جمی ہوئی ہیں۔
جیسا کہ مقدمہ میں ذکر ہوا کہ حضرت بقیہ اﷲ پانچ سال تک اپنے پدر بزرگوار کے زیر سایہ رہے اور اس دوران جس قدر بھی ممکن تھا آپ کی معرفت کرادی۔
محمد بن معاویہ ۔ محمد بن ایوب اور محمد بن عثمان جو عظیم شیعہ علماء میں سے ہیں۔ نقل کرتے ہیں کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے ہم سے آپ کا تعارف کرا دیا ہم چالیس افراد تھے اور فرمایا ۔“هذا إمامكم بعدي فلا تتفرقوا ” میرے بعد یہ تمہارا امام(ع) ہے اس کی اطاعت کرو اور تفرقہ کا شکار مت ہوجاؤ کہ اس میں ہلاکت ہے۔” سعد بن عبداﷲ ایک عظیم شیعہ عالم ہیں کہتے ہیں کہ میں نے چالیس مشکل مسئلے حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کی خدمت میں لکھے اور آپ کے وکیل احمد بن اسحاق کے پاس لے گیا کہ امام(ع) کی خدمت میں پہنچا دے اور جواب لے آئے احمد بن اسحاق نے کہا تم خود میرےساتھ آؤ دونوں امام(ع) کی خدمت میں جائیں گے۔ ہم دونوں امام(ع) کے حضور پہونچے تو دیکھا کہ حضرت بقیة اﷲ بھی وہاں موجود تھے۔ وجوہ شرعی کے ایک سو ساٹھ تھیلے وہاں رکھے ہوئے تھے۔ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام نے فرمایا بیٹے ان تھیلوں میں سے حلال اور حرام ، اچھے اور برے کو الگ کرو آپ نے تشریف لا کر ان تھیلوں میں سے ہر ایک کے مالک کا نام بتایا اور ہر تھیلے میں موجود رقم کی تعداد کے ساتھ یہ بھی بتایا کہ کون سا مال حلال کا ہے اور کون سا حرام اور اس کے بعد میرے تمام سوالات کے جواب میرے پوچھنے سے پہلے ہی دے دیئے۔