10%

 پڑے رہے ہو۔ اب ذرہ اپنے کھانے پینے کو دیکھو میں ذرہ برابر تبدیلی نہیں آئی ساتھ ہی اپنے گدھے کو بھی دیکھو کہ اس کا ڈھانچہ تک بوسیدہ ہوچکا ہے اور ہم نے ایسا اس لیے کیا کہ ہم تمہیں لوگوں کے لیے نشانی بنانا چاہتے ہیں۔ پھر دیکھو کہ ہڈیوں کے ڈھانچے کو کس طرح اٹھا کر گوشت و پوست چڑھاتے ہیں۔ اس طرح جب حقیقت ان پر نمایاں ہوگئی تو انہوں نے کہا میں جانتا ہوں کہ اﷲ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔”

ان آیات کریمہ سے جو استفادہ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ غذا اور پانی کی فطری عمر  جو سورج کےتلے صرف ایک دن کی عمر پاسکتے ہیں خداوند عالم کی حفاظت کے زیر اثر سو سال تک محفوظ رہ سکے ۔اس کی مد نظر رکھتے ہوئے قانوں تناسب کی رو سے انسان کی عمر لاکھوں سال تک پڑھ سکتی ہے۔ یہاں  یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ ہم اس کے مطالب یہاں پر صرف ذہن انسانی کو موضوع کے قریب لانےکے لیے بیان کرتے اور ہم صرف انہی پر بھروسہ نہیں کرتے ہیں اور جس چیز پر ہم بھروسہ کرتے ہیں وہی ہے جسے مقدمے میں بیان کیا ہے۔

حضرت یونس (ع) بغیر خدا کی اجازت لیے اپنی قوم سے نکل کر گئے اور ایسا کرنا ایک پیغمبر کےلیے مناسب نہیں تھا۔ اسی بناء پر وہ مچھلی کےپیٹ میں قید ہوگئے۔ اور سات دن رات وہیں رہے۔ مچھلی کے پیٹ میں انہیں اپنی خطا کا احساس ہوا تو قرآن کے مطابق انہوں نے “أَنْ لا إِلهَ إِلَّا أَنْتَ- سُبْحانَكَ‏ إِنِّي‏ كُنْتُ مِنَ الظَّالِمِينَ‏” کا ورد جاری رکھا یہاں تک کہ سات دنوں کے بعد انہیں اس قید خانے سے نجات ملی۔ قرآن کریم کہتا ہے کہ اگر یونس (ع) نے توبہ نہ کی ہوتی تو قیامت تک یہیں پر رہتا۔

“فَلَوْ لا أَنَّهُ كانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلى‏ يَوْمِ‏ يُبْعَثُونَ‏”(صافات آیت 143)