ظہور حجت کے انتظار کی اہمیت انہی معنوں میں ہے جو معنی قرآن کریم نے بیان کئے ہیں۔ قرآن ظہور حجت کے انتظار کے یوں معنی بیان کرتا ہے۔
1- وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ- لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ
2- أَنَ الْأَرْضَ لِلَّهِ يُورِثُها مَنْ يَشاءُ مِنْ عِبادِهِ وَ الْعاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ
3- وَ لَقَدْ كَتَبْنا فِي الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّكْرِ- أَنَّ الْأَرْضَ يَرِثُها عِبادِيَ الصَّالِحُونَ
ترجمہ :۔ 1۔ “ خدا نے وعدہ کیا ہے کہ تم میں سے ان لوگوں کےساتھ جو ایمان لائیں اور نیک اعمال بجالائیں بے شک انہیں روئے زمین پر خلیفہ بنایا جائے گا۔”
2۔ “ بے شک زمین اﷲ کی ہے جو اپنے بندوں کو اس کا وارث بنائے گا اور عاقبت تو پرہیزگاروں کے لیے ہے۔”
3۔ “ ہم نے قرآن کے علاوہ زبور میں بھی یہ لکھا تھا کہ میرے نیک اور صالح بندے روئے زمین کے وارث بنیں گے۔”
ان آیات سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ کی زمین پر جو اس کا خلیفہ قرار پائیں گے وہ نیک اور پرہیزگار بندے ہوںگے۔ برخلاف اس کے کہ اگر کوئی ایسا شخص جو شیطان کا بندہ ہو، اپنی خواہشات کا غلام ہو، اور پست صفات کا حامل ہو، فاسق و فاجر ہو، اور ظالم ہو تو ان آیات کا مصداق نہیں قرار پاسکتا ۔ چاہیے وہ یہ کہتا ہے کہ میں ظہور حجت کا انتظار کر رہا ہوں۔ تو بھی وہ اپنے دعوے میں جھوٹا ہے۔
بحث کے آخر میں یہ بتا دیںا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ شیعوں کےلیے نزدیک ظہور حجت کے انتظار کے کچھ فرائض ہیں جن کی ادائگی ضروری ہے ان وظائف میں سے ایک اپنے امام(ع) کے جلد ظہور کی دعا مانگنا ہے، اپنی مشکلات میں ان کے توسل سے دہائی (دعا) مانگی جائے۔ کیونکہ زمانہ غیبت میں بھی آپ فریاد رس ہیں۔
تین مطالب جن کی زیادہ تاکید کی گئی ہے ہم یہاں تحریر کرتے ہیں۔