حضرت ابو عبداﷲ کا یہ ہے کہ خداوند عالم نے آپ کی تربت میں شفا رکھی ہے اور آپ کے ھرم مطہر میں دعا کی قبولیت متواتر اور قطعی روایات سے ثابت ہے۔
آپ کے عظیم امتیازات میں سے ہے کہ آپ نے عشق و محبت ، فداکاری ، جان نثاری اور اﷲ کی راہ میں قربانی کے مفاہیم کو عملی طور پر معنی بخشے۔
“اللَّهُمَّ أَنْتَ ثِقَتِي فِي كُلِّ كُرْبَةٍ وَ أَنْتَ رَجَائِيفِي كُلِّ شِدَّةٍ وَ أَنْتَ لِي فِي كُلِّ أَمْرٍ نَزَلَ بِي ثِقَةٌ وَ عُدَّةٌ كَمْ مِنْ كَرْبٍ يَضْعُفُ عَنْهُ الْفُؤَادُ وَ تَقِلُّ فِيهِ الْحِيلَةُ وَ يَخْذُلُ عَنْهُ الْقَرِيبُ وَ الْبَعِيدُ وَ يَشْمَتُ بِهِ الْعَدُوُّ وَ تَعْنِينِي فِيهِ الْأُمُورُ أَنْزَلْتُهُ بِكَ وَ شَكَوْتُهُ إِلَيْكَ رَاغِباً فِيهِ عَمَّنْ سِوَاكَ فَفَرَّجْتَهُ وَ كَشَفْتَهُ وَ كَفَيْتَنِيهِ فَأَنْتَ وَلِيُّ كُلِّ نِعْمَةٍ وَ صَاحِبُ كُلِّ حَاجَةٍ وَ مُنْتَهَى كُلِّ رَغْبَة”
“ میرے پروردگار تو میرے ہر رنج و غم میں میری پناہ گاہ ہے اور مایوسی کے وقت تو ہی امید ہے اور جو کچھ بھی میرے لئے پیش آتا ہے اس میں میرا مددگار اور میری پناہ ہے۔ کتنے سارے غم ایسے ہیں جو دلوں کو کمزور کرتے ہیں راہ چارہ کو مسدود کرتے ہیں۔ دوستوں کو غمگین اور دشمنوں کو خوشحال کرتے ہیں سب تیرے سامنے پیش کرتا ہوں اور ان کی شکایت بھی تجھ ہی سے کرتا ہوں صرف اس لیے کہ میں تیری طرف ہی رغبت رکھتا ہوں اور تیرے غیر کی طرف نہیں ۔تو نے وہ غم بر طرف کردیئے تو تمام نعمتوں اور خوبیوں کا مالک ہے اور آرزؤں کی منتہا تیری ہی ذات ہے۔”
آپ نے اپنا سب کچھ اﷲ کی راہ میں قربان کیا مال ، جان ، عیال ، دوست و احباب ، اولاد ، یہاں تک کہ شیرخوار بچوں کو بھی قربان کیا اور صحرائے کربلا میں اپنے قتل ہونے کی جگہ یوں فرماتے ہیں۔