ہوئے۔ مگر آپ کا وجود ، آپ کی بقاء کا قید ہونا اسلام کے باقی رہنے کا عامل بنا۔
حضرت امام حسین علیہ السلام کا قیام ایک درخت کی مانند ہے جسے کربلا میں اگایا گیا جس کی حفاظت و آبیاری کا کام حضرت سید سجاد(ع) اور جناب زینب سلام اﷲ علیہا کے ہاتھوں انجام پایا۔ اسیری کے دوران آپ کا تدبیر، مدینہ میں آپ کا گریہ و نوحہ خوانی اور 35 سال کی مدت تک مصائب حسین(ع) کا ذکر کرنا ایک قسم کا فوق العادہ جہاد تھا۔ جس کے بڑے دور رس نتائج نکلے اگر سیاسی تاریخ کا تجزیہ کریں تو یہ بات روشن ہوجاتی ہے۔
تاریخ میں یہ واقعہ ملتا ہے کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام نے ابن ملجم کا خاص خیال رکھا یہاں تک کہ دودھ آپ کے لئے لایا گیا تھا اس مٰیں سے نصف خود پیا اور نصف اسے دے دیا۔ اور اس کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی بے حد سفارش فرمائی۔ حضرت امام سجاد علیہ السلام کے بارے میں روایت ہے کہ مدینہ کے گورنر نے ظلم و ستم کر کے آپ کا دل خون کردیا تھا۔ لیکن جب عبدالملک بن مروان کی طرف سے معزول ہوا اور یہ حکم اس کے بارے میں دیا گیا کہ اسے ایک درخت کے ساتھ باندھ دیا جائے اور لوگ آکر اس کی توہین کریں۔ یہ اطلاع پا کر آپ نے اپنے اصحاب کو بلا کر حکم دیا کہ خبردار ایسی حرکت کوئی بھی نہ کرے اور خود آپ اس کے پاس چلے گئے۔ اس کی دل جوئی کی ، ڈھارس دی اور عبدالملک بن مروان کے پاس اس کی سفارش کی جس کی وجہ سے اسے نجات ملی جب کہ اس کا کہنا یہ تھا کہ مجھے سب سے زیادہ خطرہ علی بن الحسین(ع) کی طرف سے تھا کیونکہ میں نے اس خاندان پر بڑا ظلم و ستم کیا تھا۔