ترجمہ ؛۔ “ یہ وہ شخص ہے جسے حجاز، خانہ خدا ، حل و حرم سب جانتے ہیں اس کے کلام میں نہیں کا لفظ موجود نہیں سوائے تشہد کے کہ اگر تشہد نہ ہوتا اس کا لا بھی نعم ہوتا ۔”
لوگوں سے میل جول کے وقت شدت حیاء سے ںطریں جھکائے رہتے ہیں اور لوگ ان کی ہیبت و جلال دیکھ کر نظریں جھکا دیتے ہیں۔ ان کے ساتھ اس وقت بات کی جاسکتی ہے کہ وہ تبسم فرمادیں۔ قیامت کے دن ان کی محبت دین اور ان کے ساتھ بغض کفر ہوگا۔ ان کے ساتھ قریب و نزدیکی انسانوں کے لیے نجات کا باعث ہوگی۔
نماز میں اﷲ کے نام کے بعد ان کی یاد اور ان کا نام ہر چیز سے مقدم ہے یعنی نماز کے اقامہ میں اﷲ کے نام کے بعد اہل بیت (ع) کا نام ہے اور نماز کا آخری جز تشہد میں بھی ان کا ذکر ہے۔
کہا جاتا ہے کہ فرزدوق ان اشعار کے کہنے کی وجہ سے بخشا گیا ہے اور جامی علیہ الرحمہ کے کہنے کو مطابق ان اشعار کے وجہ سے تمام اہل عالم کو بخشا جائے تو بھی گنجائش ہے۔
ہمیں معلوم ہے کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی زندگی شورشوں سے پر تھی یہاں تک کہ آپ نے نہج البلاغہ میں ارشاد فرمایا کہ “ میں نے مصائب میں اس طرح صبر کیا جیسے کوئی اس طرح صبر کرے کہ اس گلے میں ہڈی پھنسی ہو اور آنکھ میں کانٹا چھپا ہو۔” لیکن جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی زندگی اس سے زیادہ شورشوں میں گزری ہے۔ آپ نے جنگ صفین کے پر آشوب دور میں معاویہ نے اپنے ظلم و ستم