کا آغاز کیا ہوا تھا۔ معاویہ کو شیعوں کے گروہ در گروہ افراد کو قتل کرتے دیکھا معاویہ کو علی(ع) پر سب وشتم کرتے ہوئے اور نماز جمعہ کے خطبوں میں اس رسم کو رواج دیتے ہوئے دیکھا، کربلا کے واقعے کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ، اسیر ہوئے، اسیری کا ہر دن ان کے لیے ایک نئی موت کی مانند تھا۔
یزید کے درباروں کو دیکھا جب کہ اہل حرم (ع) آپ کے پیٹھ کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ واقعہ حرہ کے چشم دید گواہ ہیں اور یہ تمام مسلمانوں کے لیے باعث ننگ و عار ہے۔
یزید نے حکومت کے دوسرے سال پانچ ہزار کا لشکر مدینہ بھیجا اور قتل عام کا حکم دیا اور تین دن تک مدینہ کو اپنے لشکر والوں کے لیے حلال قرار دیا۔
آپ نے عبداﷲ بن زبیر کے فتنے کو بھی دیکھا جس نے محمد بن حنفیہ سمیت تمام بنی ہاشم کو شعب ابی طالب (ع) میں جمع کیا تھا کہ ان سب کو جلا ڈالے مگر اس لمحے دشمن پہنچ گیا اور موقع نہ ملا۔
آپ نے مروان بن حاکم کو بھی دیکھا تھا جس کا گورنر حجاج بن یوسف ثقفی تھا۔ اس کے اندان کو بھی دیکھا جو بیابان میں تھا اور اس میں بیک وقت پچاس ہزار افراد قید تھے۔ دمسری نے حیواة الحیوان میں لکھا ہے کہ ان کے لیے چوبیس گھنٹے میں صرف دو روٹیاں ملتی تھیں جن میں بیشتر جلی ہوتی تھیں۔
آپ(ع) محبت اہل بیت(ع) کے جرم میں لاکھوں قتل ہونے والوں کے شاہد ہیں۔ آپ نے ستاون سال کی عمر پائی اور آپ کے لیے ہر نیا دن ایک قتل گاہ کی حیثیت کا حامل تھا۔
“ والسلام عليه يوم ولد ويوم تشهد و يوم يبعث حيا”