10%

 حضرت امام محمد باقر علیہ السلام کو یہ لقب ملا کیونکہ انہوں نے علم کا شگافتہ کیا اور اسلامی علوم و معارف اور  ان کے فروعات کا ادراک کر کے ان کی بنیاد رکھی اور اسے وسعت بخشی اور تبقر کے معنی وسعت دینے کے ہیں۔

علمائے عامہ و خاصہ نقل کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے جابر بن عبداﷲ انصاری سے فرمایا۔

“يَا جَابِرُ يُوشِكُ أَنْ تَبْقَى حَتَّى تَلْقَى وَلَداً لِي مِنَ الْحُسَيْنِ يُقَالُ لَهُ مُحَمَّدٌ يَبْقُرُ عِلْمَ‏ النَّبِيِّينَ بَقْراً فَإِذَا لَقِيتَهُ فَأَقْرِئْهُ مِنِّي السَّلَامَ.”

“ اے جابر عنقریب تو میرے بیٹے حسین(ع) کی اولاد میں سے ایک کے ساتھ ملاقات کرو گے جس کا نام ہوگا جو علوم انبیاء کو شگافتہ کرے گا جب تمہاری ملاقات انکے ساتھ ہوجائے تو میری طرف سے انہیں سالام کہنا۔”

 جس وقت حضرت جابر بن عبداﷲ اںصاری نے آپ سے ملاقات کر کے حضور اکرم(ص) کا سلام پہنچایا تو آپ نے جابر سے فرمایا اے جابر اپنی وصیت تیار رکھ چند دن کے اندر تم نے مرنا ہے جابر نے روتے ہوئے عرض کیا مولا(ع) آپ یہ کس بنا پر فرما رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا۔ اے جابر خدا کی قسم پروردگار عالم نے گزشتہ اور آئندہ کا علم یہاں تک کہ قیامت تک کا علم ہمیں عنایت فرمایا ہے۔ آپ کو باقر(ع) اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ آپ نے اسلامی معارف کو وسعت دے کر ان کی بنیادیں قائم کی ہیں۔

شیخ مفید کتاب الارشاد میں فرماتے ہیں ایسے افراد جو رسول اﷲ(ص) کے اصحاب میں سے تھے جیسے جابر بن عبداﷲ اںصاری اور تابعین میں سے بزرگ علماء  اور فقہا اور دیگر جیسے جابر جعفی ، کیسان سختیانی، امین مبارک، زہری، اوزاعی، ابوحنیفہ، مالک، شافعی، زیاد بن منذر وغیرہ اور ان کے علاوہ مصنفین جیسے طبری ، بلازری، سلامی، خطیب، ابی داؤد، اسکافی فروزی، اصفہانی، بسیط اور نقاش و غیرہ بھی