5%

منافی طرز عمل سےدریع نہیں کیاقتل وغارت ، مجبور شیعوں کے اموال کو نذر آتش کردینے اور ان کے ناموس کی ہتک حرمت کرنے کے بعد ایک کثیر تعداد کو اسیر کرکے لئے گئے اور کافر قیدیوں کی طرح دنیا کے بازاروں مین فروخت کردیا

چنانچہ ارباب تاریخ لکھتے ہیں کہ ترکستان کے شہروں میں ایک لاکھ سے زیادہ شیعہ فروخت کئے گئے اور کافر غلاموں بلکہ ان سے بھی بدتر اشخاص کی مانند ان کے ساتھ سخت رویہ برتا جاتا تھا ، اس طرح کے اقداماتوہ صرف اپنے علماء کے حکم اور فتوے سے عمل میں لاتے تھے

ایران مین خان خیوہ کے مظالم اور شیعوں کے قتل وغارت کے لئے علمائے اہل سنت کے فتوے

حافظ :-اس طرح کی جنگیں اور حملے سیاسی تھے اورمذہبی پیشواؤں کے فتاوے سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا ،

خیرطلب:- نہیں ایسا نہیکن ہےبلکہ اس قسم کے حملے قتل وغارت اور ہتک حرمت علمائے اہل تسسنن کے فتاوی اور فیصلوں ہی کا نتیجہ تھے چنانچہ مرحوم ناصرالدین شاہ قاجار کے اوائل سلطنت اور میرزا تقی خاں امیرنظام کی وزارت مین جب ایران کی فوج خراسان کے ہنگامے اور سالار کے فتنےمیں پھنسی ہوئی تھی امیر خوارزم محمد امین خاں ازبک معروف بہ خان خیوہ (خوارزم ) کو موقع ہاتھ آیا اس نے مرو اور خراسان پر ایک کثیر لشکر کے ساتھ حملہ کردیا ۔اور قتل وغارت اور کافی تباہ کاری کے بعد بہت بڑے جمع کو قید کرکے لے گیا ۔ سالار کا معاملہ ختم ہونے کے بعد حکومت خان خیوہ اور اس کی سرکوبی کی متوجہ ہوئیایرانکے مقتدر اور مدبر وزیر اعظم مرحوم امیرنظام کی تدبیر سے پہلے نرمی اور مدارات سے کام لیا گیا ، مرحوم رضاقلی خاں بزارجیریی متخلص بہ ہدایت کو جو ایرانی دربار کے بڑے عقلمندوں مین سے تھے سفیر بناکر خان خیونہ کے پاس بھیجا جس کی تفصیل بہت طولانی ہے اور یہاں اس کے ذکر کی گنجائش نہیںالبتہ جو میریگزارش ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ جس وقت مرحوم ہدایت خاں خیوہ کے پاس پہنچے توگفتگو کے سلسلے میں کہا تعجب ہے کہ ایران باشندے جب روم ، روس ہند اور فرنگ وغیرہ بیرونی ممالک میں جاتے ہیں تو وہاں عزت کے ساتھ رہتے ہیں اور امن وعافیت کے ساتھ واپس آتے ہیں لیکن آپ کے حدود سلطنت میں معاملہ برعکس ہے کیونکہ آپ کے آدمی کو لوٹنے پھونکنے ، قتل وغارت اور