بات شروع کی)۔
حافظ : آپ اپنے بیانات میں برابر مطلب کو مشکل اور پیچیدہ تر بناتے جارہے ہیں۔ ابھی ایک مشکل حل نہیں ہوئی تھی کہ دوسرا اشکال پیدا کردیا۔
خیرطلب : ہمارے درمیان تو کوئی مشکل اور پیچیدہ امر نہیں ہے۔ بہتر ہوگا کہ جو کچھ آپ کی نگاہ میں مشکلی نظر آتا ہے بیان فرمائیے تاکہ اس کا جواب عرض کروں۔
حافظ : اپنے اس بیان کے آخر میں آپ نے چند بہت مشکل جملے فرمائے ہیں جن کا حل ناممکن ہے۔ اول یہ کہ علی ابن ابی طالب کرم اﷲ وجہہ مقام نبوت کے حامل تھے۔ دوسرے یہ کہ پیغمبر(ص) کے ساتھ اتحاد نفسانی رکھتے تھے۔ تیسرے انبیائے کرام پر افضلیت۔ آپ کے یہ زبانی دعوے صرف آپ کے حکم سے مان لئے جائیں یا ان کے ثبوت میں کوئی دلیل بھی ہے؟ اگر بے دلیل ہیں تو قابل قبول نہیں اور اگر کوئی دلیل ہے تو اس کو بیان فرمائیے۔
خیر طلب : آپ نے میرے بیانات کے متعلق جو یہ فرمایا کہ مشکل اور پیچیدہ ہیں اور ان کاحل کرنا ممکن نہیں تو یقینا آپ اور آپ کے ایسے ان حضرات کی نظر میں جو حقائق کو گہری نگاہ سے نہیں دیکھنا چاہتے یہی صورت ہے لیکن محقق اور منصب علماء کے سامنے حقیقت ظاہر و آشکار ہے۔
اب میں آپ کے ہر ایک اشکال کو جواب پیش کرتا ہوں تاکہ عذر کا راستہ بند ہوجائے اور آپ یہ نہ فرمائیے کہ مشکل و پیچیدہ ہیں اور ان کا حل ناممکن ہے۔
حدیث منزلت سے حضرات علی (ع) کے لیے مقام نبوت کے اثبات میں دلائل
اولا اس بات کی دلیل کہ حضرت علی(ع) شان نبوت کے حامل تھے۔ حدیث شریف منزلت ہے جو کامل صحت اور تواتر کے ساتھ ہمارے اور آپ کے طرق سے الفاظ کی مختصر کمی بیشی کے ساتھ ثابت ہوچکی ہے کہ خاتم الانبیاء(ص) نے بار بار اور مختلف جلسوں میں کبھی امیرالمومنین علی علیہ السلام سے فرمایا :
"أما ترضى أن تكون منّي بمنزلة هارون من موسى إلّا أنّه لا نبيّ بعدي"
یعنی آیا تم خوش نہیں ہو اس پر کہ مجھ سے تمہاری وہی منزلت ہے جو ہارون کو موسی(ع) سے تھی سوا اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔
اور کبھی امت سے فرمایا :" علىّ منّى بمنزلة هارون من موسى الخ "
حافظ: اس حدیث کی صحت ثابت نہیں ہے اور اگر صحیح فرض بھی کر لی جائے تو خبر واحد ہے اور