(عبارت مذکورہ بالا) اور ابن صباغ نے ان کلمات کو دوسروں سے زیادہ نقل کیا ہے کہ فرمایا :
" وَمَنْ أَحَبَّكَ فَقَدْأَحَبَّنِي وَمَن ْأ َحَبَّنِي فَقَدْأَحَبَّه اللَّهَ وَ مَن أَحَبَّه اللَّهَ ادخله الجنة وَمَنْ أَبْغَضَكَ فَقَدْأَبْغَضَنِي وَمَنْ أَبْغَضَنِي فَقَدْأَبْغَضَه اللَّهُ تَعَالی أَدْخَلَهُ النَّارَ"
( یعنی جو شخص تم کو دوست رکھے اس نے مجھ کو دوست رکھا اور جس نے مجھ کو دوست رکھا اس کو خدا دوست رکھتا ہے اور جس کو خدا دوست رکھتا ہے اس کو جنت میں داخل کرے گا اور جو شخص تم کو دشمن رکھے اس نے مجھ کو دشمن رکھا اور جس نے مجھ کو دشمن رکھا اس کو خدا دشمن رکھتا ہے اور اس کو جہنم میں داخل کرے گا۔)
پس عالم طفلی میں علی علیہ السلام کا ایمان عقل و خرد کی زیادتی کو ثابت کرتا ہے اور حضرت کے لیے ایک ایسی فضیلت ہے کہ لم یسبقہ احد من المسلمین جس میں مسلمانوں میں سے کسی نے آپ پر سبقت نہیں کی ہے۔
طبری اپنی تاریخ میں محمد بن سعد ابن ابی وقاص سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے اپنے باپ سے پوچھا کہ آیا ابوبکر سب سے پہلے مسلمان ہیں؟ کہا نہیں " وَلَقَدْأَسْلَمَ قَبْلَهُ أَكْثَرُمِنْ خَمْسِينَ رَجُلًاوَلَكِنْ كَانَ أَفْضَلَنَاإِسْلَاماً ."( یعنی ابوبکر سے پہلے پچاس آدمیوں سے زیادہ اسلام لاچکے تھے لیکن وہ اسلام کی حیثیت سے ہم سے افضل تھے۔ نیز لکھا ہے کہ عمر ابن خطاب پینتالیس (45) مردوں اور اکیس عورتوں کے بعد مسلمان ہوئے "و لکن اسبق الناس اسلاما و ايمانا فهو علی بن ابی طالب" ( یعنی لیکن اسلام و ایمان کی حیثیت سے تمام انسانوں سے سابق تر علی ابن ابی طالب(ع) تھے)
علی(ع) کا ایمان کفر سے نہیں تھا، فطری تھا
علاوہ اس کے کہ علی(ع) تمام مسلمانوں سے پہلے ایمان لائے ان کے لیے اس سلسلے میں ایک فضیلت اور ہے جو تمام فضائل میں اہم اور ان کے مخصوص صفات میں سے ہے کہ " اسلامه عن الفطرة و اسلامهم عن الکفر " یعنی علی(ع) کا اسلام فطرت سے ہے اور دوسروں کا اسلام کفر سے تھا۔ امیرالمومنین علی علیہ السلام ایک چشم زدن کے لیے بھی کفر وشرک کی طرف مائل نہیں ہوئے۔ بر خلاف عام مسلمین اور صحابہ کے جو کفر وشرک اور بت پرستی سے نکل کے اسلام لائے ( کیونکہ آپ قبل بلوغ ہی دعوت پیغمبر(ص) پر ایمان لے آئے ) چنانچہ حافظ ابو نعیم اصفہانی نے مانزل القرآن فی علی میں اور میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی میں ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ:
" وَاللَّهِ مَامِنْ عَبْدٍآمَنَ بِاللَّهِ إِلَّاوَقَدْعَبَدَالصَّنَمَ فَقَال َوَهُوَالْغَفُورُلِمَن ْتَابَ مِنْ عِبَادَةِالْأَصْنَامِ إِلَّاعَلِيَّ بْنَ أَبِيطَالِبٍ فَإِنَّهُ آمَنَب ِاللَّهِ مِنْ غَيْرِأَنْ عَبَدَصَنَماً"
( یعنی قسم خدا کی بندوں ( یعنی امت) میں سے ایک بھی ایسا نہیں ہے جو ایمان لانے سے پہلے بت پرستی نہ کرچکا ہو سوا علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے کیونکہ آپ بغیر بت کی برستش کئے ہوئے خدا پر ایمان لائے۔)
محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب باب24 میں اپنے اسناد کے ساتھ رسول اللہ(ص) سے نقل کرتے ہیں کہ