5%

زمانوں میں ہر علمی اور مذہبی مشکل مسئلہ کو حل کرنے والے صرف علی علیہ السلام تھے۔

باوجودیکہ بنی امیہ اور خلفائے ثلاثہ کے عقیدت مندوں نے خلفاء کے فضائل میں اس کثرت سے روایتیں گھڑی ہیں( جیسا کہ خود آپ کے علماء نے جرح و تعدیل کی کتابوں میں لکھا ہے) لیکن وہ لوگ ان حقیقتوں کو نہیں چھپا سکے کہ جس وقت یہودی عیسائی اور دوسرے مخالف فرقوں کے علماء ابوبکر، عمر اور عثمان کے دور خلافت میں ان کے پاس آکر یا خطوط بھیج کر مشکل مسائل دریافت کرتے تھے تو یہ لوگ مجبور ہو کر علی علیہ السلام کا وسیلہ اختیار کرتے تھے اور کہتے تھے ان پیچیدہ اور مشکل سوالات کا سوا علی ابن ابی طالب(ع) کے اور کوئی جواب نہیں دے سکتا۔ چنانچہ آپ تشریف لاتے تھے اور اس طریقے سے ان کو جواب دیتے تھے، کہ وہ مطمئن ہوکر مسلمان ہوجاتے تھے،جیسا کہ خلفاء کے تاریخی حالات میں تفصیل سے درج ہے، خلفاء ابوبکر و عمر وعثمان، کا علی علیہ السلام کے مقابلے میں اپنی مجبوری ظاہر کرنا، آں حضرت کی برتری کا اقرار اور یہ کہنا کہ اگر علی نہ ہوتے تو ہم ہلاک ہوجاتے، اس مقصد کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔

چنانچہ آپ کے مخفی اکابر علماء نے نقل کیا ہے کہ خلیفہ ابوبکر کہتے تھے۔ " أقيلوني أقيلوني فلستبخيركم وعليّ فيكم " یعنی مجھ کو برطرف کرود مجھ کو برطرف کردو کیونکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں جب کہ علی(ع) تم میں موجود ہوں۔

اور خلیفہ عمر نے مختلف معاملات اور مواقع پرستر مرتبہ سے زیادہ اقرار کیا کہ " لولاعلي لهلك عمر." یعنی اگر علی(ع) نہ ہوتے تو میں ہلاک ہوگیا ہوتا۔ کتابوں میں ان خطرناک مواقع میں سے اکثر کا ذکر موجود ہے۔ لیکن میں یہ نہیں چاہتا کہ اب جلسے کا زیادہ وقت خراب ہوکیونکہ شاید اس سے اہم مسائل پر گفتگو کرنا ضروری ہو۔

نواب : قبل صاحب اس موضوع سے بڑھ کے کون سا مطلب اہم ہوگا کیا یہ کلمات ہماری معتبر کتابوں میں موجود ہیں؟ اگر میں اور آپ کے پیش نظر ہیں تو ہماری مزید بصیرت کے لیے بیان فرمائیے ہم ممنون ہوں گے۔

خیر طلب : میں نے عرض کیا کہ اکابر علماء اہلسنت اس بات پر متفق ہیں( سوا چند متعصب اور ضدی لوگوں کے) اور مختلف عبارات و الفاظ کے ساتھ متعدد مقامات پر اس کو نقل کیا ہے۔ میں مطلب کی وضاحت اور اتمام حجت کے لیے ان میں سے بعض اسناد و کتب کی طرف جو اس وقت مجھ کو یاد ہیں اشارہ کرتا ہوں۔

قول عمر لولاعلي لهلك عمر کے اسناد

1۔ قاضی فضل اللہ بن روز بہان متعصب نے ابطال الباطل میں۔ 2۔ ابن حجر عسقلانی متوفی سنہ852 ھ نے تہذیب التہذیب مطبوعہ حیدر آباد دکن ص337 میں۔ 3۔ نیز ابن حجر نے اصابہ جلد دوم مطبوعہ مصر ص509 میں۔ 4۔ ابن قتیبہ دینوری متوفی سنہ376ھ نے کتاب تاویل مختلف الحدیث ص201، 202 میں۔ 5۔ ابن حجر مکی متوفی سنہ973ھ نے صواعق محرقہ ص78 میں۔ 6۔ حاج احمد آفندی نے ہدایت المرتاب ص126 ، ص152 میں۔ 7۔ ابن اثیر جزری متوفی سنہ630ھ نے اسد الغابہ جلد چہارم ص22 میں۔ 8۔ جلال الدین