دوسری نشست
شب شبنہ 24 رجب سنہ 1345 ھ
مغرب کے بعد سب حضرات تشریف لے آئے وہی کل رات والا مجمع تھا سوا چند محترم افراد کے جن کے متعلق یہ معلوم ہوا کہ تجار اور رؤسا میں سے تھے صاحب سلامت کے بعد جناب حافظ صاحب نے سلسلہ کلام شروع کیا۔
حافظ : قبلہ صاحب بغیر کسی چاپلوسی کے میں سچ کہتا ہوں کہ کل رات ہم شیریں خیالات اپنے ساتھ لے گئے جب آپ کی خدمت سے رخصت ہوئے تو راستے بھر ہمرائیوں کیساتھ آپ کی صحبت کا تذکرہ رہا۔ واقعا آپ کی جاذبیت اتنی قوی ہے کہ ہم سب کو آپ نے اپنی صورت و سیرت میں جذب کر لیا ہے۔ بہت کم ایسا اتفاق ہوتا ہے کہ کسی شخص میں حسن صورت اور حسن سیرت دونوں یک جا ہو جائیں۔
اشهد انک ابن رسول اﷲ حقا ( میں گواہی دیتا ہوں کہ یقینا آپ اولاد رسول(ص) ہیں۔ خصوصیت کیساتھ آج صبح جب میں کتب خانہ گیا تو انساب و تاریخ کی کئی کتابیں بالخصوص ہزار مزار اور آثارت عجم کو سادات جلیل القدر کے انساب میں مطالعہ کیا اور آپ کے کل ارشادات کے بارے میں غورکیا ۔ راقعی میں نے خط اٹھایا ۔۔۔۔ اور لذت حاصل کی بلکہ حقیقتا اس نسب شریف پر مجھ کو غبط ہوا اور کافی دیر تک سوچتا رہا اس غور و فکر کے بعد میں بہت متاثر اور رنجیدہ ہوا کہ جناب عالی کا ایسا شریف اور صحیح انسل انسان اس حسنِ صورت و سیرت کے باوجود کیونکر اسلاف کی ذلیل اور احمقانہ عادتوں کا شکار ہوسکا اور اپنے بزرگوار اجداد کے مضبوط طریقہ سے منحرف ہوکر مجوسی ایرانیوں کے رویہ کو قبول کر لیا۔
خیر طلب : پہلے تو میں جناب عالی کے حسن ظن اور نگاہ لطف کا ممنون و متشکر ہوں اور بغیر انکسار کے کہتا ہوں کہ واقعا میں وہ ذرہ ہوں جس کا کوئی شمار نہ ہو، دوسرے یہ کہ آپ نے چند آپس میں مخلوط اور مبہم جملے ارشاد فرمائے ہیں جن کو دعا گو نہیں سمجھ سکا ۔ آپ کا مطلب و مقصد کیا ہے ، متمنی ہوں کہ جملوں کو الگ الگ بیان فرمائیے تاکہ اصل حقیقت ظاہر ہو۔
گذشتہ لوگوں کی احمقانہ اور ذلیل عادتیں کوںسی ہیں؟ میرے بزرگوار اجداد کا مضبوط طریقہ کیا چیز ہے، جس سے منحرف ہوگیا ہوں ، ( اور ایرانیوں کا سیاسی رویہ کیا ہے جس کی میں نے پیروی کی ہے؟