کئے من جملہ ان کے عبداللہ ابن مسعود سے بھی جو کاتبین وحی میں سے اور رسول خدا(ص) کے معتمد علیہ تھے ان کا قرآن طلب کیا لیکن انہوں نے نہیں دیا عثمان خود ان کے گھر پر گئے اور زبردستی ان سے قرآن وصول کیا۔ جس وقت عبداللہ نے سنا کہ دوسرے قرآنیوں کی طرح ان کا قرآن بھی جلا دیا گیا تو ان کو بہت صدمہ ہوا۔ چنانچہ مجالس و محافل میں جو حدیثیں ان کو قدح عثمان میں یاد تھیں بیان کرتے تھے اصلیت سے پردے اٹھاتے تھے اور ارشارات سے لوگوں کو حقائق سمجھاتے تھے، جب یہ خبریں عثمان کو پہنچیں تو ان کے حکم سے غلاموں نے جاکر عبداللہ کو اس قدر مارا کہ ضربات کی شدت سے ان کے دانت ٹوٹ گئے اور وہ بستر سے لگے گئے یہاں تک کہ تین دن کے بعد دنیا سے چل بسے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد اول ( مطبوعہ مصر) ص67 و ص426 ضمن طعن ششم میں ان واقعات کو تفصیل سے لکھا ہے یہاں تک کہ کہتے ہیں عثمان عبداللہ کی عیادت کو گئے اور دونوں میں کافی بات چیت ہوئی تا اینکہ عثمان نے کہا: " استغفرلي ياأباعبدالرحمن قال أسأل الله أني أخذلي منك حقي. "( یعنی اے عبدالرحمن ( کنیت عبداللہ ابن مسعود) میرے لیے استغفار کرو۔ عبداللہ نے کہا کہ میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ تم سے میرا حق وصول کرے( یعنی میں ہرگز تم سے راضی نہ ہوں گا۔)
نیز نقل کیا ہے کہ جس وقت ابوذر کو ربذہ کی طرف جلا وطن کیا گیا تو ان کی مشایعت کے جرم میں عبداللہ کے جسم پر چالیس تازیانے لگائے لہذا عبداللہ نے عمار یاسر کو وصیت کی کہ عثمان کو میرے جنازے پر نماز نہ پڑھنے دینا، عمار نے بھی اس کو منطور کیا اور عبداللہ کی وفات کے بعد اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ ان کے جنازے پر نماز پڑھ کے دفن کیا۔
جس وقت عثمان کو اس کی اطلاع دی گئی تو عبداللہ کی قبر پر آئے اور عمار سے کہا کہ تم نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے کہا میں ان کی وصیت سے مجبور تھا ( عمار کا یہی عمل اس کینے کا سبب ہوا جو بعد کو ان کے ساتھ برتا گیا۔)
واقعا خلیفہ عثمان کے حرکات جیسا کہ آپ کے اکابر علماء و مورخین نے لکھا ہے حیرت انگیز ہیں، خصوصا وہ برتاوے جو وہ رسول اللہ(ص) کے خاص اور پاکباز صحابہ کے ساتھ عمل میں لاتے تھے کیونکہ ابوبکر اور عمر نے بھی ہرگز ایسے کام نہیں کئے بلکہ وہ عثمان کے طریقے کے خلاف اصحاب رسول(ص) کا پورا احترام کرتے تھے۔
عثمان کے حکم سے عمار کی زد و کوب
عثمان کے جو اعمال ان کی رحم دلی پر دلالت کرتے ہیں ان میں سے پیغمبر(ص) کے خاص صحابی جناب عمار یاسر کی توہین اور زد و کوب بھی ہے۔ چنانچہ فریقین کے علماء و مورخین نے لکھا ہے کہ جب بلاد اسلام میں عمال بنی امیہ کا ظلم و تعدی بہت بڑھ گیا تو اصحاب رسول(ص) نے جمع ہو کر عثمان کو ایک خط لکھا جس میں ان کے مظالم یاد دلائے اور مشفقانہ نصیحتیں گوش گذار کیں کہ اگر آپ ظالم اموی عمال کے رویے کی پیروی اور حمایت کرتے رہئے گا اور نیز اپنے مصاحبین کے طور طریقے پر نظر ثانی نہ