5%

عمر کے اس قول کی تردید کہ نبوت و سلطنت ایک جگہ جمع نہ ہوگی

اب رہی آپ کی دوسری دلیل خلیفہ عمر کی سند سے کہ نبوت و سلطنت ایک خاندان میں جمع نہیں ہوتی ہے تو یہ بھی آیت نمبر57 سورہ4 ( نساء) کی نص صریح سے باطل ہے ارشاد ہے۔

"أَمْ يَحْسُدُونَ النَّاسَ عَلى ماآتاهُمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِه ِفَقَدْآتَيْناآلَإِبْراهِيمَ الْكِتاب َوَالْحِكْمَةَوَآتَيْناهُمْ مُلْكاًعَظِيماً"

یعنی آیا خدا نے جو کچھ ان کو اپنے فضل و کرم سے عطا کیا ہے اس پر لوگ حسد کرتے ہیں؟ پس یقینا ہم نے آل ابراہیم کو کتاب و حکمت دی اور ان کو زبردست ملک و سلطنت عطا کیا۔

پس اس آیہ شریفہ کے حکم سے آپ کی یہ دلیل مردود ہے اور یہ حدیث قطعا ضعیف بلکہ موضوعات میں سے ہے جو خلیفہ عمر کی طرف منسوب کی گئی ہے اس لیے کہ رسول اللہ(ص) قرآن مجید کی نص صریح کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں فرماتے اور یہ آیت خود اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ نبوت و سلطنت کا ایک جگہ جمع ہونا ممکن ہے ( جیسا کہ آل ابراہیم وغیرہ میں جمع ہوئی) اس کے علاوہ منصب خلافت عہدہ نبوت کا ایک جزء ہے بلکہ اس کا تتمہ ہے ، سلطنت اور بادشاہی نہیں ہے جس کے لیے آپ کہہ سکیں کہ ایک خاندان میں جمع نہیں ہوتی۔

اگر حضرت موسی علیہ السلام کے بھائی جناب ہارون علیہ السلام خلافت موسی سے برطرف ہیں تو علی علیہ السلام بھی خلافت خاتم الانبیاء سے محروم ہوسکتے ہیں۔ اور اگر بحکم قرآن موسی ہارون علیہما السلام میں نبوت و خلافت جمع ہوئی تو قطعا محمد و علی علیہما الصلوۃ والسلام میں بھی جمع ہوگی ۔ چنانچہ جیسا کہ پہلے عرض کرچکا ہوں حدیث منزلت اس کی گواہ ہے پس آپ کی یہ حدیث قطعا بنی امیہ کے موضوعات میں سے ہے اور مجہول اور ہر پہلو سے ناقابل قبول ہے۔

اگر نبوت اورخلافت ( یا بقول خلیفہ عمر کے سلطنت) ایک جگہ جمع نہیں ہوتی ہے تو پھر مجلس شوری میں خلیفہ عمر نے علی علیہ السلام کو خلافت کےلیے کیوں نامزد کیا تھا؟ اور اسی کے بعد چوتھے نمبر پر آپ لوگ بھی حضرت کو خلیفہ کیوں مانتے ہیں؟ عجیب بات ہے کہ خلافت بلافصل تو ( حدیث گھڑ کے نبوت کےساتھ جمع نہ ہو لیکن خلافت مع الفصل جمع ہو جائے۔

چشم باز و گوش باز داں عمی حیرتم از چشم بندی خدا

اس کے علاوہ رسول اللہ (ص) صاف صاف فرماتے ہیں کہ جس راستے پر علی (ع) چلیں ادھر تم بھی چلو، دوسرون کی پیروی نہ کرو آپ کہتے ہیں کہ نبوت و سلطنت ایک خاندان میں اکھٹا نہیں ہوتیں، حالانکہ آنحضرت(ص) نے اپنی عترت کی پیروی امت پر واجب قرار دی ہے اور ان کی مخالفت کو محض ضلالت و گمراہی جانا ہے۔ جیسا کہ گذشتہ راتوں