5%

نفسانی خواہش کی بناء پر دنیاوی ریاست و حکومت حاصل کرنے کی مذمت میں رسول خدا(ص) اور ائمہ طاہرین علیہم السلام سے کافی حدیثیں مروی ہیں۔ یہاں تک کہ پیغمبر(ص) کا ارشاد ہے۔" حب الدنيارأس كل خطيئة" (یعنی دنیا کی محبت و رغبت ہر بدی کی سردار ہے) پس قطعا ابو عبداللہ علیہ السلام دنیاوی جاہ و ریاست کے طالب نہیں تھے اور نہ ایسی فانی حکومت کے لیے جانبازی کی تھی اور اپنے اہلبیت (ع) کی اسیری گوارا کی تھی۔اگر کوئی شخص اس حقیقت کو سمجھتے ہوئے ان حضرات کو دنیا طلب کہے تو وہ یقینا قرآن مجید کا منکر ہے۔

امام حسین(ع) کا قیام ریاست اور خلافت ظاہری کے لیے نہیں تھا

رہا دوسرا فرقہ جس میں وہ لوگ ہیں جو حسی دلائل چاہتے ہیں۔ ان کے لیے محسوس دلائل بہت ہیں جن کو اس تنگ وقت میں مکمل طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ نمونتہ چند چیزوں کی طرف اشارہ کر رہا ہوں۔

اول ۔ یزید پلید کے مقابلے میں حضرت ابو عبداللہ الحسین علیہ السلام کا قیام اگر جاہ طلبی اور حکومت کے شوق میں ہوتا تو رسول اللہ(ص) ان حضرت کی نصرت کا حکم دیتے چنانچہ آپ کے سلسلوں سے اس بارے میں بکثرت روایتیں مروی ہیں جن میں سے صرف ایک پر اکتفا کرتا ہوں۔

شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودۃ باب60 میں تاریخ بخاری و بغوی و ابن السکین و ذخائر العقبی امام الحرم شافعی سے سیرۃ ملا وغیرہ سے بروایت انس بن حارث بن بعیہ نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ(ص) سے سنا کہ آنحضرت(ص) نے فرمایا :

"إِنَ ابْنِي هَذَايَعْنِي الْحُسَيْنَ يُقْتَلُ بِأَرْضٍ يُقالُ لها کَربَلا فَمَنْ شهد ذالک مِنْكُمْ فَلْيَنْصُرْهُ فخرج انس ابن الحارث الی کربلا فَقُتِلَ أَنَسٌ مَعَ الْحُسَيْن ِرَضِی الله عنه معهه"

یعنی بتحقیق میرا یہ فرزند حسین(ع) زمین کربلا پر قتل کیا جائے گا۔ پس تم میں سے جو شخص اس وقت موجود ہو وہ حسین(ع) کی مدد کرے ۔ اس کے بعد لکھا ہے کہ انس بن حارث کربلا پہنچے اور حکم رسول(ص) پر عمل کرتے ہوئے امام حسین علیہ السلام کے ساتھ قتل ہوئے۔

پس معلوم ہوا کہ حضرت کربلا میں حق کے لیے کھڑے ہوئے تھے نہ کہ دنیاوی ریاست کی محبت میں۔

ان چیزوں سے قطع نظر اگر معترصین غور کریں تو خود حضرت کی روانگی سے لے کر شہادت اور اسیری اہلبیت (ع) تک حق اور حقیقت برابر نمایاں ہے، اس لیے کہ اگر کسی ملک میں کوئی شخص ریاست کو خواہش رکھتا ہے اور حکومت وقت کے خلاف خروج کرنا چاہتا ہے تو اپنے عیال و اطفال کو لے کر نہیں نکلتا ہے ، چھوٹ چھوٹے اور شیر خوار بچوں اور حاملہ عورتوں کو ہمراہ نہیں لے جاتا بلکہ بذات خود ایک لچنی ہوئی فوج لے کر بڑھتا ہے اور جب دشمن پر غالب آجاتا ہے حالات قابو میں آجاتے ہیں اور انتظامات درست ہوجاتے ہیں۔ اس وقت بال بچوں کو بلواتا ہے۔