بسم اﷲ الرحمن الرحیم
آغازِ سفر
ماہ ربیع الاول سنہ1345ہجری میں جب میں اپنی زندگی کی تیسویں منزل طے کر رہا تھا زیارت عتبات عالیات سے مشرف ہوکر ہندوستان کے راستے سے ضامن ثامن حضرت امام رضا علیہ السلام کی عتبہ بوسی کے لیے روانہ ہوا کراچی اور ببئی پہنچنے کے بعد خلاف امید خاص خاص جرائد اور اخبارات نے میری آمد کی خبر شائع کی۔ میرے پرانے دوستوں اور خلوص احباب ایمانی نے مطلع ہوکر اطراف ملک سے دعوت نامے بھیجنا شروع کیے مجبورا تعمیل حکم کرتے ہوئے دہلی ، آگرہ، سیالکوٹ ، کشمیر، حیدر آباد ، بہاول پور، کوئٹہ اور دوسرے شہروں میں حاضر ہوا۔ اور جہاں بھی وارد ہوا ۔ بلا تفریق قوم، ملت پوری تعظیم و تکریم کیساتھ استقبال ہوا اور اکثر شہروں میں دوسرے مذاہب کے علماء کی طرف سے باب مناظرہ باز رہا۔ مخصوص جلسوں میں سے ایک وہ مناظرہ تھا۔ جو ہندوستان کے قومی پیشوا گاندھی جی کے سامنے علمائے اہل ہنود اور برہمنوں سے منعقد ہوا۔ اور اخبارات و رسائل میں اس کی تفصیل شائع ہوئی ۔ چنانچہ توفیق الہی اور حضرت خاتم الانبیاء کی تائید خاص سے میں کامیابی کیساتھ مقدس دین اسلام اور مذہب حقہ جعفریہ کی حقانیت ثابت کردی۔ پھر زیر صدارت جناب ابوالبشر سید عنایت علی شاہ مدیر محترم اخبار ہفتہ وار اردو در نجف، انجمن اثنا عشریہ “ شہر سیالکوٹ کی طرف سے دعوت نامہ موصول ہوا، اور میں اس طرف روانہ ہوگیا۔ حسن اتفاق سے میرے قدیم و صمیم دوست جناب سردار محمد سرور خان رسالدار فرزند رسالدار محمد اکرم خاں مرحوم و برادر کرنل محمد افضل خان نے جو پنچاب میں ہندوستان کے خاندان قزلباش کے نامی سرداروں میں سے تھے۔ سنہ1339 و سنہ1340 ہجری میں کربلا و کاظمین اور بغداد میں افسر رہ چکے تھے۔ خاندان قزلباش کے شریف و مشہور، مومن و محوش عقیدہ اور پاکدامن افراد میں سے تھے اور شہر سیالکوٹ میں رئیس ادارہ عالیہ اور عام طورپر احترام و بندگی کے مالک تھے مختلف طبقوں کے کثیر مجمع کیساتھ میرا شاندار استقبال کیا اور میں ان کے دولتکدہ پر مہمان ہوا ۔ جب اخبارات کے ذریعہ پنجاب میں میرے آنے کی خبر پھیلی تو باوجودیکہ میں ایران کی طرف روانہ ہونے کے لیے کوشش اور اصرار کر رہا تھا چاروں طرف سے مسلسل دعوت نامے