اس سورہ کو پڑھنے کے وقت فلاں کلمہ کو زیادہ یا فلاں کلمہ کو کم کرلینا چاہئیے جب کہ اگر قرآن میں وہ کلمہ زیادہ ہوتا تو علما ضرور متنبہ کرتے کہ اس کلمہ کو حذف کردینا اس لئے کہ آدمی کا کلام نماز کے درمیان پڑھنا نماز کو باطل قرار دینا ہے اور اگر اس سورہ میں کچھ کم ہوتا تو علما ضرور ہدایت کرتے کہ سورہ کو مکمل کرنے کے لئے فلاں کلمہ ملا لینا اس لئے کہ خصوصا فرقہ امامیہ کے یہاں مشہور ہے کہ نماز میں سورہ فاتحہ کے بعد ایک مکمل سورہ پڑھنا واجب ہے،علما کا سورہ پڑھنے پر خاموش ہنا اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ جو قرآن ہمارے سامنے ہے اسی کو وہ قرآن سمجھتے ہیں اور جو سورہ قرآن میں لکھے ہیں وہ سب کے سب مکمل سورہ ہیں۔
البتہ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم کے معاملے میں سنی،شیعہ کے درمیان اختلافات ہے شیعہ کہتے ہیں کہ سورہ توبہ کے علاوہ بسم اللہ..ہر سورہ کا جز ہے لہذا وہ نماز میں تلاوت سورہ کے وقت بسم اللہ کہتے ہیں،لیکن بسم اللہ کے علاوہ کسی چیز میں بھی عملاً اختلاف نہیں ہے۔یہی اجماع عملی ہے جو تمام مسلمانوں کو قرآن مجید کے بارے میں ایک نظریہ پر قائم رکھتا ہے چاہے وہ سنی ہوں یا شیعہ کا یہ کہنا ہے کہ قرآن اپنی اصل صورت میں ہمارے سامنے موجود ہے اور اس کے مقابلے میں یعنی اس کے خلاف کسی مسلمان کا کوئی نظریہ نہیں ہے اس لئے قرآن مجید کے حقیقت کی دلیل ہے اور قرآن اپنی حقیقت کو خود ثابت کرتا ہے تمام عالم اسلام نے اس حقیقت کو مانا ہے اور اس پر عمل کیا ہے اور ان شبہات کو قوت مل ہی نہیں سکتی ہے جن کی وجہ سے ملت اسلامیہ میں کوئی ٹیڑھاپن یا کجی پیدا ہو یا قرآن مجید کی حقانیت میں کسی شک کی گنجائش ہو۔
3۔جن شیعہ علما نے صراحت فرمائی ہے کہ مصحف کی دودفتیوں کے درمیان جو(کچھ موجود ہے وہ کل کا کل قرآن ہے وہ حضرات شیعوں کے بڑے علما ہیں ار ہر دور میں شیعوں کے علما نے تحریف کا انکار کیا ہے صرف شیخ طوسی ہی پر یہ بات منحصر نہیں ہے بلکہ ان کے پہلے اور بعد کے تمام علما نے عدم