20%

4۔چوتھی بات یہ ہے کہ سرکار دو عالمؐ نے حکم دیا کہ جو آگے بڑھ گئے ہیں وہ واپس آجائیں اور جو پیچھے رہ گئے ہیں ان کا انتظار کیا جائے تا کہ آپ کی تبلیغ کو عموم حاصل ہوجائے اور ہر آدمی تک بات پہونچ جائے اس بات کو بھی اہل سنت کے بہت سے علما نے لکھا ہے جیسے

الف:حافظ ابوعبدالرحمن شیعب نسائی(1) ب:حافظ ضیاءالدین ابوعبداللہ محمد بن عبدالواحد بن احمد حنبل مقدسی(2)

غدیر کے دن حضور اکرمﷺکا خطبہ

5۔پانچویں اہم بات یہ ہے کہ اس دن سرکار دو عالم کا خطبہ ہے،بہت سی حدیثوں میں اگر چہ لوگوں نے اس خو خطبہ سے تعبیر نہیں کیا ہے لیکن اس کا تذکرہ کیا ہے اور لکھا ہے تو((قال))ضرور لکھا ہے یعنی ((خطب))نہیں لکھا ہے بلکہ((قال))لکھا ہے(یعنی حضورؐ نے فرمایا)مگر بعض حضرات نے خطبہ سے بھی تعبیر کیا ہے جیسے مسند احمد(3) اور نسائی کتاب سنن کبریٰ(4) میں خطبہ ہی لکھا ہوا ہے،سنن کبریٰ میں لکھا ہے کہ آپ کھڑے ہوئے اور فرمایا:

دوسری کتاب میں ہے کہ آپؐ نے حمد و ثنائے الہی کیا اور فرمایا:اور اسی طرح کے الفاظ دوسرے لوگوں نے بھی استمعال کئے ہیں اس لئے کہ پیغمبرؐ کے ساتھ اس وقت بہت سے لوگ تھے۔

مختصر یہ ہے کہ حدیث کے بہت سے طریقے ہیں اور مختلف طریقوں سے کلام نبیؐ کی نقل کی گئی ہے بعض نے اختصار سے کام لیا ہے اور بعض نے تفصیل سے پھر جس نے تفصیل سے کام لیا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)سنن کبری نسائی ج:5ص:135،کتاب الخصائص علیؑ سے محبت کی ترغیب اور ان سے دوری کے لئے پرہیز اور اسی طرح کتاب خصائص علیؑ میں بھی روایت کی ہےص:101

(2)احادیث المختارہ ج:3ص:213،عائشہ بنت سعد نے اپنے باپ سے اس کی روایت کی ہے

(3)مسند احمدج:4ص:372،زید بن ارقم کی حدیث

(4)مسند احمدج:5،ص:134،کتاب الخصائص ص:100،علیؑ کی محبت کی ترغیب اور ان سے دوری سے پرہیز