اکمال دین والی آیت پر جب گفتگو ہورہی تھی تو میں نے اشارتاً عرض کیا تھا کہ اس صوم غدیروالی حدیث کی صحت میں اختلاف ہے۔
2-(سَأَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ-لِّلْكَافِرِينَ لَيْسَ لَهُ دَافِعٌ-مِّنَ اللَّهِ ذِي الْمَعَارِجِ)(1)
ترجمہ:ایک سائل نے کافروں پر واقع ہونےوالے عذاب کا سوال کیا جو بلندیوں والے خدا کی طرف سے آتا ہے اور اس کو روکنےوالا کوئی نہیں۔اس آیت کی شان نزول ملاحظہ ہو جب غدیرخم کا واقعہ اور اس دن مولا علی کے سلسلہ میں سرکار نے جو کچھ فرمایا تھا وہ بات شہروں میں پھیل گئی تو یہ بات حارث بن نعمان فہری تک بھی پہونچی پس وہ حضور کی خدمت میں ایک ناقہ پر سوار ہو کر آیا اور ایک نالے میں اپنے ناقہ سے اترا اور اسے بٹھادیا،پھر حضور سے کہنے لگا،محمدؐ آپ نے ہمیں کلمہ شہادتیں کا حکم دیا تو ہم نے گواہی دی آپ نے ہمیں نماز پنجگانہ کا حکم دیا تو ہم نے قبول کرلیا پھر آپ نے ہمیں زکات نکالنے کا حکم دیا تو ہم نے قبول کرلیا آپ نے ہمیں ایک مہینہ روزہ رکھنے کا حکم دیا تو ہم نے قبول کرلیا آپ نے ہمیں حج کا حکم دیا تو ہم نے قبول کرلیا پھر آپ نے اتنے ہی پر اکتفا نہیں کی بلکہ اپنے چچازاد بھائی کو بلند کرکے ہم سب پر اس کو افضل قرار دیا اور کہا:((میں جس کا مولا ہوں علیؑ اس کا مولا ہے))سچ بتایئےگا کہ یہ آپ نے اپنی طرف سے ہا ہے یا خدا کی طرف سے۔
سرکارؐ نے فرمایا:اس کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں یہ میں نے اپنی طرف سے نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے کہا ہے یہ سن کر حارث بن نعمان اپنی سواری کی طرف یہ کہتا ہوا مڑا:پالنےوالے اگر محمدؐ حق کہہ رہے ہیں تو مجھ پر آسمان سے پتھر برسادے یا ہمیں دردناک عذاب دیدے ابھی وہ اپنی سواری تک پہونچا نہیں تھا کہ اللہ نے اس پر ایک پتھر مارا جو اس کے سر پر لگا اور سر کو پھاڑتا ہوا نیچے سے نکل گیا اور خدا نےیہ آیت نازل فرمائی((سأل سائل..)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1)سورہ معارج:آیت:3،2،1