5%

خیر طلب: یہ حدیث بھی ان دوسری موضوع اور جعلی حدیثوں کے مانند ہے جن کو زمانہ بنی امیہ اور بالخصوص منافقین کے رئیس معاویہ ابن ابو سفیان کے دور خلافت میں آل محمد(ص) اور اہل بیتطہارت علیہم السلام کے چند دشمنوں نے خوشامد اور جذبہ کفر و نفاق کے ماتحت تصنیف کیا تھا، اور بعد کو بنی امیہ اور ان کے پیروئوں نے بھی علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی عداوت میں ان گڑھیہوئی حدیثوں کی تقویت دی اور مشہور کیا، انہوں نے اس کا موقع ہی نہیں دیا کہ جناب حمزہ و عباس کی طرح جناب ابوطالب کا ایمان بھی شہرت پاسکے، بلکہ اس کو قوم کی نگاہ سے بالکل اوجھل ہی کردیا۔

حدیث ضحضاح کی مجہولیت

عجیب تر چیز یہ ہے کہ حدیث ضحضاح کو وضع اور نقل کرنےوالا بھی حضرت امیرالمومنینعلیہ السلام کا فاسق وفاجر دشمنتنہا مغیرہ بن شعبہ ہی تھا جس کے لیے ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد سوم ص159 تا ص163 میں، مسعودی مروج الذہب میں اور دیگر علماء لکھتے ہیں کہ مغیرہ نے بصرہ میں زنا کی، لیکن جس روز خلیفہ عمر کے سامنے اس کے گواہ پیش ہوئے تو تین آدمیوں نے شہادت دی اور چوتھا شخص بیان دینے آیا تو اس کو ایسا جملہ سکھا دیا گیا کہ گواہی ٹوٹ گئی، چنانچہ ان تیتوں پر حد جاری کی گئی اور مغرہ چھوڑ دیا گیا۔

ایک ایسے فاسق و فاجر زنا کار اور شرابیآدمی نے جس ر شرعی حد جاری ہونے والی تھی اور جو معاویہ ابن ابوسفیان کا جگری دوست تھا اس حدیث کو امیرالمومنینعلیہ السلام کے بغض و عداوت اور معاویہ کی چاپلوسی میں گڑھا اور معاویہ ان کے اتباع اور دیگر اموی افراد نے اس جعلی حدیث کو تقویت دی اور تصدیق کرنے لگے کہ "ان اباطالب فی ضحضاح من نار" ( ترجمہ گزر چکا ہے۔)

نیز جو افراد اس کے سلسلہ روایت میں داخل ہیں جیسے عبدالملک بن عمیر، عبدالعزیز داوردی اور ابوسفیان ثوری وغیرہ وہ بھی آپ کے اکابر علمائے جرح و تعدیل کے نزدیک جیساکہ ذہبی نے میزان الاعتدال جلد دوم میں لکھا ہے ضعیف و مردود اور ناقابل قبول ہیں اور ان میں سے بعض مثلا سفیان ثوری جعلسازوں اور سخت جھوٹے لوگوں میں شمار کئے گئے ہیں لہذا ایسی حدیث پر کیونکر اعتماد کیا جاسکتا ہے جس کو ایسے مشہور معروف ضعیف و کذاب لوگوں نے نقل کیا ہو؟

ایمان ابوطالب(ع) پر دلائل

حقیقت یہ ہے کہ جناب ابوطالب کے ایمان پر کثرت سے دلیلیں موجود ہیں جن سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ اور ایسے