5%

شروع حصہ دوم

آٹھویں نشست

شب جمعہ یکم شعبان المعظم سنہ1345ھ

اول شب میں ابھی نماز عشا میں مشغول تھا کہ حضرات تشریف لے آئے۔ نماز اور چائے نوشی کے بعد گفتگو شروع ہوئی۔

سید عبدالحی : قبلہ صاحب! گذشتہ شب آپ نے کچھ ایسی باتیں بیان فرمائیں جو آپ جیسے انسان کو زیب نہیں دیتیں کیوںکہ ان سے مسلمانوں کے درمیان باہمی رنجش اور منافرت پھیلتی ہے۔ آپ خود بہتر جانتے ہیں کہ آپس کی پھوٹ اور نفرت ہی کے سبب سے مسلمان فنا ہورہے ہیں جس طرح کبھی اتفاق اور یگانگی کی وجہ سے غالب تھے۔

خیر طلب : (انتہائیتعجب کے ساتھ) مہربانی کر کے بیان فرمائیے کہ میری تقریر کا کون سا حصہ مسلمانوں میں جدائی اور افتراق پیدا کرنے والا ہے؟ اگر آپ کا اعتراض درست ہے اور واقعی مجھ سے کوئی غفلت ہوئی ہے تو میں متنبہ ہوجائوں گا۔

سید : کس و ناکس کی توضیح اور تعریف کے موقع پر آپ نے مسلمانوں کو دو حصوں میں تقسیم کر کے مسلم و مومن سے تعبیر فرمایا تھا در آنحالیکہ مسلمان سب ایک ہیں اور لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کے کہنے والے آپس میں بھائی بھائی ہیں ان کو ایک دوسرے سے الگ کر کے دو گروہوں میں تقسیم نہ کرنا چاہیئے اس سے اسلام کو نقصان پہنچتا ہے آپ ہی جیسے حضرات کے بیانات کا یہ اثر ہے کہ خاص و عام پیدا ہوگئے اور شیعہ اپنے کو مومن اور ہم کو مسلم کہنے لگے چنانچہ آپ نے ہندوستان میں دیکھا ہے کہ شیعہ کو مومن اور سنی کو مسلم کہتے ہیں۔ حالانکہ اسلام و ایمان ایک چیز ہے اس لیے کہ اسلام در اصل احکام کی اطاعت و قبولیت اور ان کو تسلیم کرنے کا نام ہے اور یہی تصدیق کا مطلب اور ایمان کی حقیقت ہے ساری امت نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ اسلام عین ایمان اور ایمان حقیقت اسلام ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہیں۔لیکن آپ نے جمہور کے برخلاف بیان دے کر اسلام اور ایمان کو ایک دوسرے سے الگ قرار دیا۔