5%

تنہائی کی وجہ سے انبیائ(ع) کا سکوت اور گوشہنشینی

خیر طلب: پہلی چیز تو یہ کہ انبیائ(ع) ا وصیائ مشیت خداوندی اور ہدایات الہی کے مطابق عمل کرتے تھےاور اپنا ذاتی ارادہ نہیں رکھتے تھے لہذا ان کے اوپر اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ جنگ کے لئے کیوں نہیں اٹھے یا دشمنوں کے مقابلہ میں سکوت و گوشہ نشینی کیوں اختیار کی یا شکست کیوں کھائی؟

اگر انبیاۓ عظام اور اصیاۓ کرام کے تاریخی حالات دیکھیئے تو اس قسم کے واقعات کثرت سے ملیں گے جو آپ کے خیالات سے میل نہیں کھاتے۔ خصوصیت کے ساتھ قرآن مجید نے بھی ان میں سے بعض کاذکر

کیا ہے کہ ان حضرات نے ہمراہی اورمددگار نہ ہونے کی وجہ سے خاموشی اور گوشہ نشینی یا روپوشی اور فرار اختیار کیا چنانچہ آیت نمبر10 سورہ نمبر54(قمر) میں شیخ الانبیائ حضرت نوح(ع) کا قول بیان کرتا ہے: "فَدَعا رَبَّهُ أَنِّي‏ مَغْلُوبٌ‏ فَانْتَصِرْ "( یعنی پس خدا سے دعا کی کہ بار الہا میں ا پنی قوم سے مغلوب ہوں لہذا میری مدد کر) آیت نمبر48 سورہ نمبر16( مریم) میں حضرت ابراہیم علی نبینا و آلہ و علیہ السلام کے سکوت و کنارہ کشی کی خبر دیتا ہے کہ جس وقت انہوں نے اپنے چچا آزر سے امداد مانگی اور مایوس کن جواب پایا تو فرمایا:

"وَ أَعْتَزِلُكُمْ‏ وَ ما تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ وَ أَدْعُوا رَبِّي "

یعنی میں تم سے اور ان بتوں سے جن کی تم خدا کے علاوہ پرستش کرتے ہو کنارہ کشی اختیار کرتا ہوں اور اپنے پروردگار کو پکارتا ہوں۔

پس جس مقام پر اپنے چچا سے امداد اور کمک نہ ملنے کی وجہ سے ابراہیم خلیل اللہ عزلت وگوشہ نشینی اختیار کریں، وہاں یار و مددگار نہ ملنے کی وجہ سے علی علیہ السلام کو بدرجہ اولی عزلت و کنارہ کشی اختیار کرنا چاہیئے۔

شیخ: میرا خیال ہے کہ اس عزلت سے مراد عزلت قلبی ہے کہ ان سے قلبا دوری اور بیزاری اختیار کی نہ کہ عزلت مکانی۔

خیر طلب: اگر جناب عالی فریقین کی تفسریں ملاحظہ فرمائیں تو دیکھیں گے کہ اعتزل سے مراد عزلت مکانی تھی نہ کہ عزلت قلبی مجھ کو یاد ہے کہ امام فخر الدین رازی تفسیر کبیر جلد پنجم ص809 میں کہتے ہیں:

" الاعزال للشئی هوالتباعدعنه ولمرادانی افارقکم فی المکان وافارقکم فی طریقتکم"

یعنی کسی چیز سے اعتزال کے معنی ہیں اس سے دوری اختیار کرنا، اور حضرت ابراہیم کی مراد یہ تھی کہ میں تم سے مکانی اور مذہبی دونوں حیثیتوں سے دوری اور علیحدگی اختیار کرتا ہوں۔