5%

سید رضیؒ کے حالات

اس کے علاوہ جلیل القدر عالم ربانی سید رضی الدین علیہ الرحمہ کی پرہیزگاری اور تقدس کا درجہ اس سے کہیںبلند ہے کہ ان پر خطبہ تصنیف کر کے حضرت علی علیہ السلام کی طرف اس کی جھوٹی نسبت دینے کا الزام لگایا جاۓ۔ اس کے ماسوا عربی ادب کے جن ماہرین نے نہج البلاغہ کے خطبوں پر غور کیا ہے انہوں نے ان کی فصاحت و بلاغت، قدرت الفاظ، بلندی مطالب اور ان کے اندر سموۓ ہوۓ علم و حکمت کے بیشبہاخزاںوں کے پیش ںظریہ طے کردیا ہے کہ سید رضی ہی نہیں بلکہ کسی فرد بشر کے لئےبھی ایسا کلام پیش کرنا ممکن نہیں ہے جب تک اس کا تعلق عالم غیب سے نہ ہو چنانچہ آپ کے اکابر علمائ جیسے عبدلحمید ابن ابی الحدید معتزلی نے اور متاخرین میں سے شیخ محمد عبد و مفتی مصر نے اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ حضرت کے خطبات وبیانات میں جو خوبصورت الفاظ، بلند مطالب اور نادر انداز کلام استعمال ہوا ہے وہ ثابت کرتا ہے کہ یہ کلمات کلام رسول(ص) کے بعد کلام خالق سے پست اور کلام مخلوق سے بلند ہیں۔

عالم جلیل القدر سید رضی رضوان اللہ علیہ کے نظم ونثر کلمات وخطبات اور رسائل شیعہ وسنی صاحبان علم کے تالیفات میں موجود ہیں جن کی نہج البلاغہ کے خطبوں سے مطابقت کرنے کے بعد ظاہر ہوتا ہے کہ دوںوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔

چہ نسبت خاک را با عالم پاک

چنانچہ ابن ابی الحدید نقل کرتے ہیں کہ مصدق بن شبیب نے ابن الخشاب جیسے مشہور و معروف شخص سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا، نہ رضی نہ غیر رضیکسی کے لئے بھی ممکن نہیں ہے کہ ایسے نادر اسلوب کے ساتھ ایسا کلام پیش کرسکے۔ ہم نے کلمات رضی کو دیکھاہے، ان کو اس مقدس خطبات سے ہرگز کوئی رابطہ نہیں ہے۔

خطبہ شقشقیہ سید رضیؒ کی ولادت سے پہلے درج کتب تھا

علمی قواعد اور عقل اصول سے قطع نظر فریقین ( شیعہ وسنی)کے اہل علم اور اصحاب حدیث و تاریخ کے بڑی جماعت نے عالم گزرگوار سید رضی الدین اور ان کے پدر مرحوم ابو احمد نقیب الطالبین کی ولادت سے قبل اس خطبے کی روایت کی ہے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں کہتے ہیں کہ اس خطبہ شریفہ کو میں نے اپنے شیخ ابوالقاسم بلخی امام معتزلہ کی تصانیف میں کثرت سے پایا ہے۔ جو مقتدر باللہ عباسی کے زمانے میں تھے، اور ظاہر ہے کہ سید رضی کی ولادت اس کے مدتوں بعد ہوئی ہے۔اس کے علاوہ میں نے اس کو مشہور متکلم ابوجعفر بن قبہ کی کتاب الانصاف میں بھی بارہا دیکھا ہے جو