5%

دسویں نشست

شب یک شنبہ سوم شعبان المعظم سنہ1345 ہجری

(رات ہوتے ہی مولوی صاحبان کافی بڑے مجمع کے ہمراہ تشریف لاۓ، عید ولادت حضرت امام حسین(ع) کی شب تھی لہذا شربت اور شیرینی وغیرہ کی تقسیم ہوئی، اس کے بعد ہم نے چاہا کہ مباحثے کا آغاز ہو کہ اتنے میں نواب عبدالقیوم خان صاحب بھی تشریف لے آۓ اور معمولی صاحب سلامت اور شربت و شیرینی کے بعد بیان کیا)

نواب: قبلہ صاحب میں اپنی جسارت کے لئے معافی چاہتا ہوں لیکن ایک ایسا مسئلہ پیش آگیا ہے کہ اس پر سوال اور گفتگو بہت ضروری ہے اگر اجازت ہو تو جلسے کی کاروائی اور مذاکرہ شروع ہونے سے پہلے اپنا مطلب عرض کروں۔

خیر طلب: ضرور فرمائیے، میں سننے کے لئے بسرو چشم حاضر ہوں۔

عمر کے علمی درجے پر سوال اور اس کا جواب

نواب: آج صبح کو کچھ لوگ غریب خانے پر اکٹھا تھے، سب جناب عالی کا ذکر خیر کر رہے تھے گذشتہ راتوں میں آپ مباحثہ کی تفصیل کے متعلق، اخبارات اور رسائل پڑھے جارہے تھے اور ہم لوگ طرفین کے بیانات پر بحث کر رہے تھے اتنے میں میرے ایک بندہ زادے( عبدالعزیز) نے جو اسلامیہ کالج میں تعلیم حاصل کر رہا ہے مجھ سے کہا کہ چند روز ہوۓ درجے میں درس دیتے ہوۓ ہمارے استاد معظم نے اپنی تقریر میں ایک موقع پر کہا کہ مدینہ منورہ میں خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب رضی اللہ عنہ صدر اسلام کے سب سے بڑے فقیہوں میں سے تھے۔ آپ کو قرآن کے آیات و مطالب اسلام کے علمی و فقیہی مسائل پر پورا عبور حاصل تھا اور علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ عبداللہ ابن مسعود، عبداللہ ابن عباس، عکرمہ اور زید بن ثابت وغیرہ رضی اللہ عنہم جیسے فقہائ کے درمیان خلیفہ عمر رضی اللہ عنہ سب سے زیادہ فقیہ اور ممتاز تھے، یہاں تک کہ علی ابن ابی طالب