5%

اصحاب کو دلیل و برہان کےساتھ سب و شتم ہی کرے یا دشنام دے جب بھی تو آپ اپنے بڑے بڑے پیشوائوں کے عقائد اور بیانات کے مطابق اس پر کفر کا حکم نہیں لگا سکتے۔

حالت تو یہ ہے کہ آپ کی معتبر کتابوں میں مثلا مسند احمد حنبل جلد دوم ص236 سیر حلبیہ جلد دوم ص107 صحیح بخاری جلد دوم ص74 ، صحیح مسلم کتاب جہاد اور اسباب النزول واحدی ص108 وغیرہ میں بکثرت روایتیں موجود ہیں کہ پیغمبر(ص) کے سامنے اکثر اصحاب جیسے ابوبکر وغیرہ آپس میں ایک دوسرے کو گالیاں دیتے تھے بلکہ مار پیٹ بھی کرتے تھے اور رسول(ص) مشاہد فرماتے تھے لیکن ان کو کافر نہیں کہتے تھے بلکہ نصیحت فرماتے تھے( البتہ رسول اللہ(ص) کے روبرو اصحاب کی اس قسم کی باہمی جنگ اور نزاع کی روایتیں علماء اہل تسنن ہی کیکتابوں میں ہیں، شیعوں کی کتابوں میں نہیں۔

اس مختصر بیان کے ساتھ آپ نے اپنے پہلے ایراد کا جواب سن لیا کہ کسی صحابی پر لعنت یا دشنام موجب کفر نہیں ہوا کرتی۔

اگر بغیر کسی دلیل و برہان کے سب ولعن کریں تو فاسق ہوجائیں گے، کافر نہ ہوں گے۔ اور ہر عمل بد عفو و مغفرت کے قابل ہوتا ہے۔

صحابہ کے نیک و بد اعمال رسول اللہ(ص) کے پیش نظر تھے

دوسرے آپ نے فرمایا ہے کہ رسول خدا(ص) اصحاب کی توقیر اور تعظیم و تکریم فرماتے تھے تو یہ صحیح ہے میں بھی تصدیق کرتا ہوں اور تمام مسلمان اور صاحبان علم و فضل اس پر متفق ہیں کہ لوگوں کے سارے نیک و بد اعمال پر آنحضرت(ص) کی نظر رہتی تھی اور آپ ہر شخص کے اچھے عمل کی قدر فرماتے تھے۔ چنانچہ نوشیرواں کی عدالت اور حاتم طائی کی سخاوت کا بھی احترام فرماتے تھے۔ لیکن یہ حقیقت بھی مسلم ہے کہ اگر کسی فرد یا جماعت کی توقیر و تکریم فرماتے تھے تومحض اسی نیک عمل کی بنا پر جو اس سے ظاہر ہوتا تھا۔

بدیہی چیز ہے کہ کسی مخصوص عمل پر کسی فرد یا جماعت کی قدر و منزلت قبل اس کے کہ اس سے اس ک برعکس فعل صادر ہو اس کی نیک بختی اور خوش انجامی پر دلالت نہیں کرتی ؟؟؟ ؟؟؟؟ صدور گناہ سے قبل قہر و عقوبت جائز نہیں ہے چاہے یہ معلوم بھی ہو کہ آئندہ اس کی مرتکب ہوگا۔

چنانچہ حضرت امیر المومنین علیہ السلام باوجودیکہ عبدالرحمن ابن ملجم مرادی کے عمل و شقاوت اور انجام بد سے آگاہ تھے اور بار بار اس سے فرماتے بھی تھے کہ تو میرا قاتل ہے بلکہ ایک موقع پر صریحا فرمایا کہ

اريدحياته‏ ويريدقتلى‏عذيرك من خليلك من مراد