باتیں نہیں ہیں بلکہ کچھ حقیقت ہے تو مہربانی کر کے بیان فرمائیے۔
خیر طلب: اکثر مسائل میں ںص صریح بلکہ جمہور امت کے برخلاف حکم دیا گیا ہے جن کی پوری تفصیل پیش کرنے کا وقت نہیں ہے۔ قطع نظر اس سے کہ خود آپ ہی کے علمائ نے چاروں مذاہب کے درمیان اختلافی مسائل پر کافی کتابیں لکھی ہیں، بہتر ہوگا کہ آپ شیخ الطائفہ ابوجعفر محمد ابن حسن ابن علی ابن طوسی قدس سرہ کی عظیم المرتبت کتاب "مسائل الخلاف فی الفقہ" کا مطالعہ فرمائیے جس میں انہوں نےفقہاۓ اسلام کے سارے اختلافات کو باتطہارت سے لے کر باب دیات تک بغیر کسی تعصب اور جانب داری کے جمع کر کے اہل علم کے سامنے رکھ دیا ہے۔ ان سب کو نقل کرنا تو ممکن نہیں ہے لیکن نمونے اور مطلب کو صاف کرنے کے لئے تاکہ حضرات اہل جلسہ کو یہ معلوم ہوجاۓ کہ نہ ہم زبانی باتیں کرتے ہیں اور نہ غلط الزامات عائد کرتے ہیں مختصر طور پر ایک مسئلے کی طرف اشارہ کرتا ہوں، جس سے ظاہر ہوجاۓ گا کہ اسی کے اندر قرآن مجید کی نص صریح کےبرخلاف فتوی دیا گیا ہے۔
شیخ: فرمائیے، کون سا مسئلہ ہے جس میں برعکس فتوی دیا گیا ہے؟
پانی نہ ہو تو غسل و وضو کے بدلے تیمم کرنا چاہیئے
خیرطلب: آپ حضرات خود جانتے ہیں کہ باب طہارت کا یہ ایک مسلمہ مسئلہ ہے کہ غسل اور وضو سنتی ہو یا واجب، خالص پانی سے ہونا چاہیئے۔ آیت نمبر8 سورہ نمبر5( مائدہ) میں ارشاد ہے:
"يا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلاةِ- فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَ أَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرافِقِ"
یعنی جب تم نماز کے لئے اٹھو تو اپنے چہروں کو اور ہاتھوں کو مع کہنیوں کے دھوؤ۔
مطلب یہ کہ پاک وخالص پانی سے وضو کرو، اورجس موقع پر ایسا پانی دستیاب نہ ہوتو آیت نمبر46 سورہ نمبر4 ( نسائ) میں حکم ہوتا ہے:
" فَلَمْ تَجِدُوا ماءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيداً طَيِّباً فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَ أَيْدِيكُمْ مِنْهُ"
یعنی اگرپانی نہ پاؤتو پاک مٹی پر تیمم کرو پس اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کرو۔
لہذا خاک پاک سے تیمم کرنا چاہیئے ان دونوں صورتوں کے علاوہ کوئی تیسرا حکم نہیں دیا گیا ہے۔ پہلے درجے میں وضو کے لئے پانی ضروری ہے اور دوسرے درجے میں جب پانی نہ ملے یا کوئی اور مانع ہو تو سفر میں ہو یا حضر میں اس کے عوض پاک مٹی سے تیمم فرض ہے۔ اور اس حکم میں سارے فقہاۓ اہل اسلام متفق ہیں چاہے وہ شیعہ اثنا عشری جماعت کے ہوں یا مالکی، شافعی اور حنبلی۔