جب میں اس کتاب کو پڑھتا تھا تو برابر اس بزرگِ شخصیت کی روح پرفتوح کے لئے طلب رحمت کرتا رہتا تھا کہ کس قدر زحمت اٹھائی ہے اور کتنا تبحر حاصل تھا بہتر ہوگا کہ آپ حضرات اس کتاب کو حاصل کر کے مطالعہ فرمائیے تاکہ اس بات کی تصدیق کیجئے کہ اصحاب رسول کے اندر علی علیہ السلام کی ذات بے مثال تھی۔
علی علیہ السلام کی خلافت بلافصل کے ثبوت میں جو کھلی ہوئی دلیلیں موجود ہیں ان میں سے ایک یہ حدیث بھی ہے اس لئے کہ باتفاق عقل و نقل ہر قوم و ملت کے اندر عالموں کو جاہلوں پر فوقیت اور حق تقدم حاصل ہے بالخصوص ایسی صورت میں جب رسول اللہ(ص) کا فرمان موجود ہو کہ جو شخص میرے علم سے بہر اندوز ہونا چاہتا ہے اس کو چاہیئے کہ علی کے دروازے پر آۓآپ کو خدا کا واسطہ انصاف سے بتائیے کہ آیا یہ مناسب تھا کہ جو باب علم خود پیغمبر(ص) نے امت کے سامنے کھولا تھا لوگ اس کو بند کر کے اپنے حسبِ دل خواہ ایسا دروازہ کھولیں جس کی مراتبِ علمی سے کوئی ربط ہی نہ ہو؟
شیخ: اس حدیث کے بارے میں اور اس موضوع پر کہ یہ حدیث ہمارے علمائ کے نزدیک عام طور سے مبقول ہے کافی بحث ہوچکی، اس میں شبہ نہیں کہ بعض نے اس کو ضعیف اور خبر واحد کہا ہے تو بعضوں کے نزدیک یہ تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہے، لیکن اس کو علم لدنی سے اور اس بات سے کیا ربط ہے کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ علم غیب کے عالم اور باطنی امور سے آگاہ تھے؟
علی علیہ السلام عالم غیب تھے
خیر طلب: یا تو آپ میرے معروضات اور دلائل پر توجہ نہیں کرتے یا محض مخالفت کے جذبے میں مغالطہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔
کیا میں پہلے عرض نہیں کرچکا ہوں کہ جیسا آپ کو خود اعتراف ہے پیغمبر خاتم الانبیاء(ص) سارے خلقت میں مرتضی اور برگزیدہ تھے اور بحکم آیہ مبارکہ:
"عالِمُ الْغَيْبِ فَلا يُظْهِرُ عَلى غَيْبِهِ أَحَداً إِلَّا مَنِ ارْتَضى مِنْ رَسُولٍ"
یعنی وہ عالم الغیب ہے، پس اپنے غیب سے کسی کو آگاہ نہیں کرتا سوا اس رسول کے جس کو مرتضی اور برگزیدہ کیا ہے۔
خداوند عالم نے آں حضرت(ص) کی نگاہوں کے سامنے سے پردے ہٹا دیے تھے اور بطور استثنائ آں حضرت(ص) کو علوم غیبی عنایت فرماۓتھے؟ پس من جملہ ان علوم کے جو آپ کے شہر وجود میں جمع تھے عالم وجود کے اسرار و غیوب کا علم و وقوف بھی تھا۔ چنانچہ اس خداداد قوت کے اثرت سے جملہ باطنی امور آں حضرت کے پیشِ نظر تھے اور آں حضرت(ص)